پھر آپ ﷺ نے مشر کین کی تعداد کا اندا زہ لگا یا اور آگئے چل پڑ ے ۔
آگے ایک گرا ؤ نڈ تھا جس میں مختلف کنو یں تھے ۔ ان کنو ؤ ں کا نا م بدر تھا ۔ اسی وجہ سے اس میدا ن کو بھی بد ر ہی کہتے ہیں ۔ اور علا قے کو بھی بدر ہی کہتے تھے ۔ لڑا ئی بھی یہیں ہو ئی اس ی وجہ سے اس لڑ ائی کو غزوہ بدر کہتے ہیں ۔
جنگ کی کہا نی :
مشر کین مکہ لشکر جہا ں بیٹھا ہو تھا اس کے سا منے بھی کچھ کنو یں تھے ۔ آپ ﷺ سب سے آگے والے کنو یں کے پا سجا کر ڑہر گئے ۔
مسلما ن وں نے اس پر قبضہ کر کے با قی کنو یں بند کر دیئے ۔ اس کا یک بڑا قا ئد ہ یہ تھا کہ جب جنگ سے پہلے کا فرو ں کو پا نی نہ ملے گا تو شا ید پیا س کی شدت سے وہ ٹھیک طرح لڑ نہیں سکیں گئے یا گر لڑ یں بھی تو زیا دہ نقصان نہیں کر سکیں گے ۔
اب گراو نڈ ما منظر یہ تھا کہ آپ ﷺ کی فو ج اس سا حل کے قر یب طرف تھی جس طرف سے ابو سفیا ن اپنا قا فلہ لے کر بھا گ گیا تھا کیو نکہ مسلما ن اس قا فلے کی طرف جا رہے تھے ۔ جب کہ کا فر لو گ دوسرے کو نے میں تھے اور سب کنو ؤ ں پر مسلما نو ں کا قبضہ تھا ۔
آپ ﷺ نے جنگ کے لئے فو جی تر تیب سے کھڑ ے کیئے ۔ انہیں جنگ کا طر یقہ سمجھا یا کہ کس وقت کیا کر نا ہے ۔ صحا بہ اکر ام ؑ نے آپ ﷺ کے لئے ایک اونچی جگہ خیمہ لگا یا تھا ۔ آپ ﷺ وہا ں چلے گئے اور دعا کر نے لگے ۔
اللہ پا ک نے چا ررحمتیں نا زل کیں :
آسما ن سے با رش نا زل کی ۔ جہا ں مسلما ن کھڑ ے تھے وہا ں سے مٹی وغیرہ صاف ہو گئی اور مسلما نو ں کے لئے کھڑا ہو نا آسا ن ہو گیا اور جہا ں کا فر کھڑ ے تھے با رش کے پا نی کی وجہ سے وہاں کیچڑ ہو گیا لہذا ان کے لیے کھڑ ے ہو نا مشکل ہو گیا ۔
انسا ن کی فطر ت ہے جب پر یشا ن ہو تو اکثر کا م ٹھیک نہیں ہو تے ۔ پر یشا نی کا ایک بہت اچھا حل یہ ہے کہ انسا ن سو جا ئے ۔ جب سو کر اٹھے تو پر یشا نی کا فی حد تک دور ہو جا تی ہے ۔اسی لیے ڈاکٹر ڈ پریشن والو ں کو نیند والی گو لیا ں دیتے ہیں تا کہ یہ سو کر فر یش ہو جا ئیں ۔
اب حلا ت بڑ ے خراب تھے ۔ اللہ پا ک نے بھی مسلما ن وں کو اونگھ دے دی ۔ اونگھ ہلکی سی نیند کو کہتے ہیں اس نیند کی وجہ سے پر یشا نی ختم ہو گئی اور جب وہ اٹھے تو مکمل قر یش تھے ۔
ان دو نو ں با تو ں کے متعلق اللہ پا ک نے فر ما یا :
” جب وہ تم پر اونگھ طا ری کر رہا تھا ، اپنی طرف سے خو ف دور کر نے کے لیے اور تم پر آسما ن سے پا نی اتا را تھا ، تاکہ اس کے ساتھ تمہیں پا ک کر دے اور تم سے شیطا ن کی گند گی دور کرے اور تا کہ تمہا رے دلو ں پر مضو ط گرہ باند ھے اور اس کے ساتھ قد مو ن کوجما دے ۔
دراصل کا فر زیا دہ تھے اور مسلما ن کم تھے ۔ ہو یہ کہ جنگ شروع ہو ئی تو مسلما ن وں کو کا فر وں کی تعدا د کم محسو س ہو نے لگی ۔
جب وہ تمہیں جس وقت تم موا بل ہو ئے ، ان کو تمہا ری آنکھو ں میں تھو ڑ ے دکھا تھا اور تم کو ان کی آنکھو ں میں بہت کمکر تا تھا ۔
اس طرح مسلما نو ں میں حو صلہ پیدا ہو ا لیکن بعد میں کا فرو ں کو مسلما ن اپنے سے دو گنازیا دہ نظر آنے لگے ۔
یہ ان کی آنکھو ن سے دیکھتے ہو ئے اپنے سے دو گنا دیکھ رہے تھے ۔
اس طرح وہ مسلما نو ں سے اور گھبرا گئے اور اللہ پا ک نے کا فروں کے دلو ں میں رعب دال دیا ۔
اللہ پا ک فر ما تے ہیں :
“عنقر یب میں ان کے دلو ں میں جنھو ں نے کفر کیا ، رعب ڈال دوں گا “
مسلما نوں کی فو ج کو تر تیب دینے کے بعد آپ ﷺ جب خیمہ میں چلے گئے تو دعا کر نے لگے ۔
آپ ﷺ نے اتنی دعا کی کہ اللہ پا ک نے وعدہ کیا کہ وہ فر شتو ں کے زر یعے مدد کر یں گے ۔ پھر اللہ پا ک نے مسلمانو ں کی مدد کے لئے ایک ہزار فر شتے بھیجے او خو د بھی مدد کی ۔
اللہ پاک فر ما تے ہیں :
” جب تم اپنے رب سے مدد ما نگ رہےتھے تو اس نے تمہا ری دعا قبو ل کر لی کہ بیشک میں ایک ہزار فر شتو ں کے ساتھ تمہا ری مدد کر نے والا ہو ں ، جو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں “
یہی وجہ ہے کہ جب جنگ ختم ہو ئی تو مسلما ن کہتے تھے ہما رے ما رنے سے پہلے ہی کو ئی نہ نظر آنے والا کا فر کو ما ر دیتا تھا ۔
جنگ کا انجا م :
وہ لو گ جو مسلما ن پر شدید قسم کا تشدد کر تے تھے اور بے دردی سے قتل کیا کر تے تھے ، ان کو بد لے میں قتل کیا گیا ۔ ابو جہل جس نے سمیہ ؑ کی ٹا نگو ں کو اونٹنی سے با ند ھ کر ٹا نگیں تو ڑنے کے بعد نیزہ ما ر کر قتل کیا تھا ، آج کے دن اس مظلو م کی بدعا لگی اور وہ دو چھو ٹے چھو ٹے بچو ں کے ہا تو ں ما را گیا ۔
وہ امیہ بن خلف جو بلا ل حبشی ؑ کو با ند ھ کر ما رتا تھا اسے بھی قتل کر دیا گیا ۔