You are currently viewing “حضرت موسیٰ اور کو ہ طو ر کا واوقعہ”

“حضرت موسیٰ اور کو ہ طو ر کا واوقعہ”

حضرت موسیٰ مصر سے روانہ ہوئے اور مدین کی جانب چل پڑے آپ راستہ طے کر رہے تھے راستہ کیا تھا ایک چٹیل میدان تھا جہاں نہ پانی تھا نہ کوئی سایہ دار درخت تھا، صرف خاردار جھاڑیاں تھیں گرمی کی شدت سے برا حال تھا۔ لیکن آپ راستہ طے کرتے رہے۔ کچھ دور فاصلے پر ایک کنواں نظر آیا ، وہاں کچھ لوگ پانی بھرتے نظر آ رہے تھے آپ کنوئیں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ چرواہے پانی نکال رہے ہیں ایک طرف دولڑکیاں بھی کھڑی ہیں۔ حضرت موسیٰ نے لڑکیوں سے کھڑی ہونے کی وجہ دریافت کی۔ تو لڑکیوں نے بتایا کہ یہ چرواہے پانی لینے نہیں دیتے ہمارے والد ضعیف العمر ہیں وہ پانی بھرنے کے قابل نہیں اس لئے ہم یہاں پانی لینے آئے ہیں ۔ حضرت موسیٰ نے وہاں سے چرواہوں کو ہٹایا، کنوئیں پر سے بھاری پتھر کو ہٹایا کنوئیں کا ڈول بھی بھاری تھا ، اسی ڈول سے پانی نکال کر لڑکیوں کو دیا اور خود بھی پیا۔ لڑکیوں نے اپنے مویشیوں کو پانی پلایا اور پانی لے کر گھر کی طرف چل پڑیں حضرت موسیٰ کے لئے یہ جگہ اجنبی تھی یہاں انہیں کوئی جانتا بھی نہیں تھا ان کے پاس کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا سفر کرنے کے باعث بہت زیادہ تھکے ہوئے بھی تھے پاس ہی ایک درخت کے سایہ میں بیٹھ گئے اور دعا کی:

اے رب، تو نے جو اچھی چیز اتاری ہے میں اس کا محتاج ہوں۔ لڑکیوں نے گھر پہنچ کر اجنبی مسافر اور پانی دینے کے بارے میں باپ سے سارا ماجرہ بیان کیا باپ نے ایک لڑکی سے کہا کہ جاؤ اس اجنبی مسافر کو اپنے ساتھ لے آؤ وہ ہمارا مہمان ہوگا ۔ بیٹی باپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت موسیٰ کے پاس آئی اور کہا کہ میرے باپ نے آپ کو یاد فرمایا ہے آپ میرے ساتھ چلئے وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ حضرت موسیٰ آمادہ ہوئے اور ساتھ روانہ ہو گئے راستہ میں حضرت موسی نے لڑکی سے کہا کہ میں آگے چلوں گا تم میرے پیچھے چلنا اور رہنمائی کرنا دونوں گھر پہنچے ۔ بیٹی نے حضرت موسیٰ کا تعارف باپ سے کروایا دونوں کچھ دیر باتیں کرتے رہے، حضرت موسیٰ نے مصر چھوڑ نے کا تمام واقعہ سنایا اس پر بزرگ میزبان نے شعیب کے نام سے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ تم میرے مہمان ہو، اور یہاں محفوظ ہو، اب تم ظالموں سے دور ہو۔ بیٹی نے باپ سے سفارش کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس اجنبی کو ملازم رکھ لیجئے اس لئے کہ یہ قوی بھی ہے اور امانت دار بھی ہے۔ باپ نے قوی ہونے کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ قوی ہونے کا ثبوت اس طرح ملا کہ اس نے بھاری ڈول سے پانی نکالا۔ لیکن یہ تم نے کیوں کر جانا کہ وہ امانت دار بھی ہے؟ حضرت شعیب نے پوچھا۔ بیٹی نے جواب دیا کہ جب میں بلانے گئی تو اجنبی نے مجھے پیچھے چلنے کے لئے کہا، اور وہ خود آگے چلتا رہا میں اشارہ سے راستہ بتاتی رہی ہم دونوں اسی طرح راستہ طے کرتے رہے میں سمجھ گئی کہ یہ پیچھے چلنے کا اشارہ اسی لئے تھا کہ اس کی نگاہ مجھ پر نہ پڑے۔ حضرت شعیب نے حضرت موسی سے فرمایا کہ اللہ نے میرے دل میں بات ڈال دی کہ میری بیٹی صفورہ کا نکاح تم سے کردوں اس کا حق مہر یہ ہے کہ تم آٹھ سال تک میری بکریوں کی رکھوالی کرو اگر مدت بڑھا کر دس سال کر دو تو یہ اور بھی بہتر ہے۔ حضرت موسیٰ نے شرائط منظور کر لیں اور نکاح ہو گیا ۔ حضرت شعیب نے اپنا عصا بھی حضرت موسی کے حوالے کیا ، وہ ایک مدت تک مدین میں رہے اور ذمہ داریاں نبھاتے رہے لیکن مصر کے یاد ستاتی رہی کبھی کبھی ان کے دل میں خیال آتا کہ مصر واپس جا کر حالات کا جائزہ لیا جائے۔

آپ نے ایک مرتبہ پختہ ارادہ کر لیا حضرت شعیب کو اپنے ارادہ سے آگاہ کیا اور اجازت چاہی ۔ حضرت شعیب نے جانے کی اجازت دے دی حضرت موسیٰ نے اپنی اہلیہ صفورہ کے ہمراہ جانے کے لئے سامان سفر باندھ لیا اور مصر کی جانب چل پڑے راستہ طے کر رہے تھے کہ کھانے کا وقت آ پہنچا کھانا پکانے کے لئے آگ کی ضرورت پڑی، چقماق پتھر کو رگڑنا شروع کیا لیکن آگ کی چنگاری بھی نہیں نکلی تو مایوس ہو گئے۔ یکبارگی آسمان پر کالے بادل چھا گئے، اچانک تیز وتند آندھی آئی اس کے بعد بارش شروع ہوگئی جس سے  موسم بدل گیا بلکہ موسم سرد ہو گیا کہ موسیٰ کو سردی محسوس ہوئی گرمی پیدا کرنے کے لئے آگ کی ضرورت پڑ گئی، آپ چاروں طرف دیکھنے لگے کہ شاید کہیں آگ نظر آجائے ۔ آپ نے دیکھا کہ کچھ دور فاصلے پر روشنی دکھائی دینے لگی آپ اپنی بیوی صفورہ سے کہنے لگے کہ یہاں سے کچھ دور مجھے روشنی نظر آرہی ہے، میں جا رہا ہوں ، ہو سکتا ہے کہ وہاں آگ جل رہی ہو، میں آگ لینے جا رہا ہوں۔ آپ اس روشنی کے مقام کی طرف روانہ ہوئے، کچھ دیر بعد وہاں پہنچ گئے قریب جا کر دیکھا کہ ایک پہاڑ ہے اور نزدیک ایک درخت ہے اس کے پیچھے سے روشنی آرہی ہے آپ نے غور سے دیکھنا شروع کیا اس مقام سے ایک آواز ابھری آواز میں جاہ و جلال کی کیفیت تھی: اے موسیٰ میں تمام جہانوں کا رب ہوں تو پاک جگہ پر ہے اس مقام کا نام طور ہے تو اپنی جوتیاں اتار پھر اس بلندی پر چڑھ جا ، یہ طور کا پہاڑ ہے۔ اس پر اسرار آواز سے آپ شش و پنچ میں پڑ گئے، کچھ خوف کا احساس ہوا، حکم کے مطابق آپ بلندی پر چڑھ گئے پھر آواز گونجتی ہے: اے موسیٰ میں نے تجھے پیغمبری کے لئے چن لیا ہے، میں رب ہوں میری عبادت کر، نماز قائم کر ۔ پھر آپ اللہ سے کلام کرتے ہیں اسی لئے حضرت موسیٰ کو کلیم اللہ بھی کہا جاتا ہے جو روشنی نظر آئی وہ اللہ کا نور تھا جو کوہ طور پر ظاہر ہوا اللہ نے پھر موسیٰ سے دریافت کیا: اے موسیٰ تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟ موسیٰ فرماتے ہیں۔ یہ میرا عصا ہے اس سے بکریوں کو ہانکتا ہوں ، اس سے درختوں سے پتے جھاڑ کر بکریوں کو کھلاتا ہوں ۔ پھر اللہ کی جانب سے حکم ہوتا ہے اس عصا کو زمین پر ڈال دے۔ آپ حکم آپ حکم کی تعمیل کرتے ہیں ، عصا سانپ کی شکل اختیار کر لیتا ہے ” آواز آتی ہے، خوف نہ کھا اسے اٹھا لے۔ آپ سانپ کو اٹھا لیتے ہیں تو پھر وہ دوبارہ عصا بن جاتا ہے۔ حکم ہوتا ہے کہ فرعون کے پاس جا اسے  ہدایت کر