You are currently viewing قوم عاد گمراہ قوم راہ راست پر نہ آئی

قوم عاد گمراہ قوم راہ راست پر نہ آئی

قوم عادگمراہی میں مبتلا تھی، طرح طرح کے برے کام کرنا، ظلم و زیادتی اور لوٹ مار کرنا ان کی عادت بن چکی تھی۔ خاص کر کمزور طبقہ ان کے ظلم و زیادتی کا شکار تھا، غریب کسانوں کی زمینیں اور ان میں پیدا ہونے والا اناج مار دھاڑ کر چھین لیا کرتے تھے۔ انہیں فصل اگانے کی بھی مہلت نہیں دیتے تھے، اس لئے کمزور طبقہ بھوک و افلاس میں اپنے دن گزارتا تھا۔ قوم عاد کا پیشہ کاشتکاری تھا، وہ زراعت کے طریقوں سے بھی اچھی طرح واقف تھے۔ اس کے علاوہ پہاڑوں کی چٹانیں کاٹ کر ان پتھروں سے مضبوط عمارتیں بناتے، پہاڑ کے غاروں میں بھی رہتے تھے، پتھروں سے شکار کرتے تھے، جانوروں کو آگ میں بھون کر کھاتے تھے۔

عاد کے لوگ عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے تھے لیکن غریب اور محتاجوں کا خیال نہیں رکھتے تھے، بھوکوں کو کھانا نہیں کھلاتے بلکہ ان کے پاس جو کچھ بھی کھانے کے لئے ہوتا، چھین لیتے تھے۔قوم عاد مورتیوں کو پوجتی تھی۔  قوم عادکے لوگ ان کے آگے سجدہ کرتے، ان سے مرادیں مانگتے۔

حضرت ہود کو اللہ نےقوم عاد کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا۔ وہ بت پرستی سے روکتے تھے، ظالموں کو ظلم کرنے سے روکتے، ایک اللہ کی طرف بلاتے

حضرت ہود نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں اور ساری کائنات کو پیدا کیا۔ زمین میں رزق کا سامان پیدا کیا۔ تم کھیتی باڑی کرتے ہو، تم زمین سے زیادہ سے زیادہ اناج حاصل کرتے ہو، اس کے باوجود تم دوسروں کا اناج چھینتے ہو، بلکہ تمہیں تو چاہئے تھا کہ اپنے اناج میں سے محتاجوں اور غریبوں کا حصہ نکالتے، بھوکوں کو کھانا کھلاتے تاکہ وہ بھی تمہاری طرح زندہ رہ سکیں۔ لیکن تم ایسا نہیں کرتے۔ جو کچھ اللہ نے ایمان لاؤ گے تو تمہاری کھیتی باڑی برباد ہو جائے گی اور تمہارے عیش و عشرت میں خلل پڑے گا۔ ایسا کبھی نہ سوچو۔ اگر تم بتوں کی پوجا چھوڑ دو اور مجھ پر ایمان لاؤ تو اللہ تعالی تمہارے مال اور اولاد میں برکت دے گا، تمہیں قوت عطا کرے گا۔ آپ نے اگلے زمانے کی باتیں یاد دلاتے ہوئے کہا: “اے قوم، کیا اللہ نے گمراہوں کو ہدایت دینے کے لئے حضرت نوح کو نبی بنا کر نہیں بھیجا تھا؟ اس قوم نے اللہ کی باتوں کا انکار کیا تو کس طرح اللہ کے عذاب نے انہیں پکڑا تھا؟ پھر تم میرے نبی ہونے کا کیوں انکار کرتے ہو؟” آپ نے بتوں کے بارے میں فرمایا، “یہ بت جسے تم اپنا معبود سمجھتے ہو، یہ نہ کسی کے ساتھ بھلائی کر سکتے ہیں، نہ یہ تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں، بلکہ تم خود اپنا نقصان کر رہے ہو۔” آپ نے انہیں آگاہ کرتے ہوئے کہا، “اے قوم، تمہارے جھوٹے معبودوں پر نہ میں ایمان لاؤں گا، نہ ان سے ڈروں گا، میرا بھروسہ اللہ پر ہے، جو تمہارا اور ہمارا پروردگار ہے۔”

قوم عاد کے لوگ برابر نصیحتیں سنتے لیکن کوئی توجہ نہیں دیتے۔ ایک کان سے سنتے تو دوسرے کان سے اڑا دیتے۔ ایک روز قوم عاد کے لوگوں نے حضرت ہود سے پوچھا کہ تم بار بار نبی ہونے کا دعوی کرتے ہو تو اس کی تمہارے پاس کیا دلیل ہے؟ ہمیں دلیل دکھاؤ۔ ہم دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں۔ بغیر دلیل دیکھے ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑیں گے، اور یہ بھی بتاؤ کہ جس عذاب کی بات کر کے ہمیں ڈرا رہے ہو، وہ عذاب کب آنے والا ہے؟ حضرت ہود نے جواب دیا کہ تم مجھ سے سوال کرتے ہو کہ عذاب کب آنے والا ہے، یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا پیغام پہنچانے والا ہوں اور آنے والے عذاب سے خبردار کرنے والا ہوں۔ ان تمام کوششوں کے باوجود گمراہ قوم راہ راست پر نہ آئی۔ اللہ کے غضب نے جوش مارا اور عذاب کے آثار پیدا ہونے لگے۔ بارش نہیں ہوئی، پانی کی بے حد قلت پڑ گئی، خشکی سے زمین چٹخنے لگی، کنوئیں سوکھنے لگے، کھیتوں میں آب پاشی کے لئے بھی پانی نہیں تھا، درخت پودوں کی ہریالی ماند پڑنے لگی، پھول مرجھا گئے۔ قوم عاد پانی کے لئے ترس رہی تھی، پانی کا ایک قطرہ بھی میسر نہیں تھا۔ حضرت ہود نے اپنی قوم سے کہا، “اے میری قوم، اپنے رب سے گناہ بخشو اور پھر رجوع کرو تاکہ اللہ بارش برسائے۔”

نافرمان لوگوں نے کہا کہ ہم اپنے گناہ نہیں بخشوائیں گے اور تمہیں رسول بھی نہیں مانیں گے۔ لوگ بارش کے لئے ہر وقت آسمان کی طرف دیکھتے رہے، شاید کہیں سے بادل آجائے اور بارش برسائے۔ ایک روز ایسا ہی ہوا، بادل کا ایک ٹکڑا نظر آ گیا، لوگ دیکھ کر خوش ہونے لگے کہ اب بارش ہوگی۔ حضرت ہود نے فرمایا، “جو تم دیکھ رہے ہو یہ برسنے والا بادل نہیں ہے، یہ بادل نہیں بلکہ عذاب کی علامت ہے۔ جس عذاب کی میں خبر دیتا تھا، اس کا وقت آ پہنچا ہے۔ جو کچھ مجھے کہنا تھا، وہ کہہ چکا۔” جو لوگ حضرت ہود پر ایمان لائے تھے، ان کے بارے میں حضرت ہود سے اللہ نے فرمایا کہ “جو لوگ ایمان لائے ہیں، ان کو اپنے ساتھ لے کر کسی محفوظ مقام کی طرف چلے جاؤ۔” چنانچہ حضرت ہود ایمان والوں کو ساتھ لے کر نکل گئے۔ شہر میں اب کوئی ایمان دار نہیں رہا۔ لوگوں نے دیکھا کہ آسمان پر بادل کے ٹکڑے تیر رہے ہیں، ہوائیں چلنی شروع ہوئیں۔ ہوا میں اتنی تیزی تھی کہ پہلے نہ کسی کان نے سنا نہ کسی نے دیکھا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے آندھی چلنے لگی یہاں تک کہ اپنا ہاتھ بھی بجھائی نہیں دیتا تھا۔ ظاہر طور پر مٹی اور دھول اڑ رہی تھی، بڑے بڑے درخت جڑ سے اکھڑنے لگے، ہر طرف اندھیرا چھا گیا، ہر شے ہوا میں اڑنے لگی۔ آدمی بھی نہیں ٹھہر سکتا تھا نہ بیٹھ سکتا تھا۔ ہوا کے زور سے بڑی بڑی مضبوط عمارتیں بھی گر گئیں، ہر طرف چیخ و پکار کی آوازیں ہواؤں کے شور میں دب کر رہ گئیں۔ قوم عاد کو اپنے مضبوط مکانوں پر بڑا ناز تھا، یہ تمام مکانات زمین بوس ہو گئے، زمین پر کچھ بھی نہیں بچا۔ یہ آندھی آٹھ دن اور سات راتیں رہی، جب آندھی تھی تو لاشوں کا پتہ بھی نہیں تھا۔  قوم عادنے غرور و تکبر کیا، ایک اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو ماننے لگے، ان ہی سے مرادیں مانگا کرتے تھے، نبی کی باتوں کا انکار کیا۔ جب عذاب کے دن قریب آنے لگے تو اللہ نے نیک لوگوں کو بچا لیا، گمراہوں کو عبرتناک سزا ملی۔  قوم عادکا صرف کتابوں میں ذکر پایا جاتا ہے۔ تباہ شدہ شہر کے کھنڈرات آج بھی درس عبرت دینے کے لئے زمین پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

Leave a Reply