سورہ عبسہ (عربی: سورة عبس، “اس نے جھکایا”) قرآن کی 80ویں سورت ہے جس میں 42 آیات ہیں۔ یہ مکی سورہ ہے۔ سورہ کو لفظ ‘عباس’ کے بعد اس طرح منسوب کیا گیا ہے جس سے یہ کھلتی ہے۔ ابتدائی آیات قابلیت کے موضوع پر بحث کرتی ہیں، جب نبی محمد نے ایک نابینا شخص کو دیکھا جو ان کے پاس رہنمائی کے لیے آیا تھا۔ باقی سورت میں کائنات کی تخلیق، مردوں کے جی اٹھنے اور کافروں کے عذاب کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔
اس سورت کا آغاز حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک نابینا شخص سے ہوتا ہے جو ان کے پاس رہنمائی کے لیے آیا تھا۔ وہ شخص عبداللہ بن ام مکتوم تھا جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے جو پیدائش سے نابینا تھے۔ وہ ایک متقی مسلمان تھا جو اکثر دینی تعلیم کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتا تھا۔ تاہم، اس خاص دن، پیغمبر مکہ کے اہم رہنماؤں کے ایک گروہ کو تبلیغ میں مصروف تھے۔ جب عبداللہ بن ام مکتوم وہاں پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف منہ موڑا اور منہ پھیر لیا۔اس کے بعد قرآن پیغمبر کو ان کے طرز عمل پر ملامت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نبی کو یاد دلاتا ہے کہ وہ کسی ایسے شخص سے روگردانی نہ کرے جو اس کی رہنمائی چاہتا ہے، چاہے ان کی جسمانی حالت کچھ بھی ہو۔ اللہ نبی کو یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ وہ دوسروں کی نجات کا ذمہ دار نہیں ہے۔ یہ ہر فرد پر منحصر ہے کہ وہ نبی کی ہدایت پر عمل کرے یا نہ کرے۔باقی سورت میں کائنات کی تخلیق، مردوں کے جی اٹھنے اور کافروں کے عذاب کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔ اللہ انسانوں کو یاد دلاتا ہے کہ وہ نطفہ سے پیدا کیے گئے ہیں اور وہ آخر کار زمین پر واپس آئیں گے۔ وہ انہیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ وہ قیامت کے دن دوبارہ اٹھائے جائیں گے اور ان سے ان کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ اللہ کا انکار کرنے والوں کو جہنم میں سزا دی جائے گی جبکہ ایمان والوں کو جنت میں سزا ملے گی۔سورہ عبسہ تمام مسلمانوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ وہ ہر ایک کے ساتھ شفقت اور شفقت سے پیش آئیں، چاہے ان کی جسمانی حالت کچھ بھی ہو۔ یہ ایک یاد دہانی بھی ہے کہ ہم سب اپنی نجات کے خود ذمہ دار ہیں۔ ہمیں اپنے بچانے کے لیے دوسروں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنی زندگیاں اسلام کی تعلیمات کے مطابق گزارنی چاہیے۔سورہ عبسہ کے چند اہم نکات یہ ہیں:ہمیں کسی ایسے شخص سے منہ نہیں موڑنا چاہیے جو ہماری رہنمائی کا طالب ہے، چاہے اس کی جسمانی حالت کچھ بھی ہو۔ہم دوسروں کی نجات کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ یہ ہر فرد پر منحصر ہے کہ وہ نبی کی ہدایت پر عمل کرے یا نہ کرے۔
ہمیں نطفہ سے پیدا کیا گیا ہے اور ہم آخر کار زمین پر واپس آئیں گےہم قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے اور ہم سے ہمارے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔اللہ کا انکار کرنے والوں کو جہنم میں سزا دی جائے گی جبکہ ایمان والوں کو جنت میں سزا ملے گی۔