قرآن مصدر ہے قِرأ یَعتَر سے‘ اس کے اصل معنی ہیں پڑھنا۔ پس اس چیز کا نام قرآن رکھنے کا مطلب یہ ہوا کہ یہ عام و خاص سب کے پڑھنے کے لئے ہے اور بکثرت پڑھی جانے والی چیز ہے۔ (ترجمان القرآن‘ تفسیر سورۃ بقرہ 2) یہاں ایک بات اور قابل توجہ ہے کہ قرآن مجید میں خدا اور خلق کے تعلق کو واضح کرنے کے لئے انسانی زبان میںسے زیادہ تر الفاظ بطور انداز بیان، مصطلحات اور استعارے استعمال کئے گئے ہیں جو سلطنت اور بادشاہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ طرز بیان قرآن میں اس قدر نمایاں ہے کہ کوئی شخص جو اسے سمجھ کر پڑھے‘ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
کلام کے ابتدا میں فرمایا گیا:’’پڑھئے اپنے پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا انسان کو خون کے لوتھڑے سے‘ پڑھئے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے اس نے تعلیم دی قلم سے انسان کو ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہیں جانتا تھا‘‘ (سورۃ علق) ۔یہ تھا خالق کائنات کا اپنے بندوں سے پہلا خطاب وحدت خداوندی کا تعارف‘ انسان کی پیدائش کا راز‘ علم و حکمت کے نور سے جہالت کی تاریکیوں کے انقطاع کا اعلان۔