You are currently viewing “ایوب انصاری: ایک عظیم شخصیت کی داستان”

“ایوب انصاری: ایک عظیم شخصیت کی داستان”

اس جلیل القدر صحابی کا نام خالد بن زید تھا اور آپ بنو نجار قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کی کنیت ابو ایوب تھی اور انصار مدینہ میں سے ہونے کی وجہ سے انہیں انصاری کہا جاتا تھا۔ مسلمانوں میں سے کون ہے جو حضرت ابو ایوب انصاری کی عظمت کا معترف نہ ہو بلاشبہ اللہ تعالی نے مشرق و مغرب میں ان کا نام بلند کر دیا اور انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ہجرت کر کے جب رسول اللہ مدینہ منورہ پہنچے تو عارضی رہائش کے لئے ان ہی کے گھر کو منتخب کیا۔

حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر رسول اللہ کے قیام کرنے کی داستان ایسی دل کو چھو جانے والی ہے کہ اسکا تذکرہ بار بار کرنے کو جی چاہتا ہے۔

جب نبی پاک مدینہ منورہ پہنچے تو اہلیان مدینہ آپ کے ساتھ بڑی محبت سے پیش آئے۔ وہ سب آپ کے لئے چشم براہ تھے۔ آپ کی آمد پر سب نے فراخ دلی کا ثبوت دیا اور اپنے گھروں کے دروازے کھول دیئے تاکہ جس گھر کو آپ پسند کریں، اس میں رہائش اختیار کرلیں، لیکن رسول اللہ نے مدینہ کے قریب وادی قبا میں چند دن قیام کیا وہاں ایک مسجد تعمیر کی۔ یہ تاریخ اسلام کی وہ پہلی مسجد ہے جس کی بنیاد رسول اللہ نے اپنے دست مبارک سے رکھی جو آج مسجد قباء کے نام سے معروف ہے۔ وادی قباء میں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد آپ نے مدینہ منورہ کا رخ کیا یثرب کے سردار راستے میں آپ کا انتظار کر رہے تھے۔ ہر ایک کی یہ دلی تمنا تھی کہ اسے رسول اللہ رحمت عالم کی میزبانی کا شرف حاصل ہو۔ ہر سردار آپ کی خدمت اقدس میں مطالبہ کرتا کہ آپ میرے ہاں قیام کریں۔آپ سب کو ارشاد فرماتے:میری اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے مامور ہے۔ اونٹنی مسلسل چلتی رہی۔ سب کی آنکھیں اس کی طرف لگی ہوئی تھیں۔ دلوں میں ایک ہی شوق سمایا ہوا تھا کہ کسی طرح رسول اکرم کی میزبانی کا شرف حاصل ہو جائے۔ جب اونٹنی ایک گھر کے سامنے سے گزر جاتی تو اس گھر والے غمگین و نا امید ہو جاتے اور اس سے اگلے گھر والوں کو امید کی کرن نظر آنے لگتی لیکن اونٹنی مسلسل اپنی چال میں مست چلی جا رہی تھی۔ لوگ بھی اس کے پیچھے رواں دواں تھے ہر ایک کے دل میں یہ شوق تھا کہ وہ اس خوش قسمت کو دیکھیں کہ جس کے نصیب میں یہ دولت آتی ہے۔ ہوا یہ کہ اونٹنی حضرت ابو ایوب کے گھر کے سامنے کھلی فضا میں بیٹھ گئی، لیکن رسول اللہ اس سے نیچے نہ اترے تھوڑی ہی دیر میں وہ اٹھی اور دوبارہ چلنے لگی اور رسول اللہ اس کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ پھر جلدی ہی دوبارہ اس پہلی جگہ پر آکر بیٹھ گئی۔ اس موقع پر حضرت ابو ایوب کا دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا۔ فوراً رسول اللہ کو خوش آمدید کہا اور اتنے خوش ہوئے گویا دنیا کے خزانے ہاتھ لگ گئے۔ آپ کا سامان اٹھایا اور اپنے گھر کی طرف چل دیئے حضرت ابو ایوب انصاری کا گھر دو منزلہ تھا۔ بالائی منزل کو خالی کر دیا گیا تاکہ رسول اللہ اس میں قیام کریں، لیکن نبی  نے رہائش کے لئے نچلی منزل کو ترجیح دی۔ حضرت ابو ایوب انصاری نے آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے، جہاں آپ نے رہنا پسند کیا وہیں انتظام کر دیاجب رات ہوئی رسول اللہ بستر پر لیٹ گئے تو حضرت ابو ایوب انصاری اور ان کی اہلیہ بالائی منزل پر چلے گئے، لیکن فوراً خیال آیا کہ افسوس ہم کیا کر بیٹھے ! کیا ہمارے آقا رسول اللہ نیچے آرام کریں گے اور ہم اوپر ؟ کیا ہم رسول اللہ کے اوپر چلیں پھریں گے ؟کیا ہم رسول اللہ اور وحی کے درمیان حائل ہوں گے ؟ یہ تو آپ کی خدمت اقدس میں گستاخی ہے۔ ہم تو تباہ ہو جائیں گے۔ دونوں میاں بیوی انتہائی حیران و پریشان تھے۔ کچھ بجھائی نہ دیتا تھا کہ اب کیا کریں؟ دلی سکون جاتا رہا! اور پریشانی کے عالم میں دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھے اسی غم میں پریشان رہے اور اس بات کا خیال رکھا کہ وہ کمرے کے درمیان نہ چلیں۔ جب صبح ہوئی تو حضرت ابو ایوب انصاری نے نبی کی خدمت اقدس میں عرض کی: يا رسول اللہ ! بخدا آج رات ہم دونوں رات بھر جاگتے رہے، ایک لمحہ بھی سو نہ سکے۔ آپ نے دریافت فرمایا: کیوں؟

عرض کی ہمارے دل میں احساس پیدا ہوا کہ ہم چھت کے اوپر ہیں اور آپ نیچے تشریف فرما ہیں۔ ہم دیوار کے ساتھ چمٹ کر بیٹھے رہے کہ اگر ہم چھت پر چلیں گے تو چھت کی مٹی آپ پر پڑے گی جو آپ کو ناگوار گزرے گی اور دوسری بات یہ ہے کہ ہم  آپ اور وحی کے درمیان حائل ہو گئے ہیں یہ باتیں سن کر رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

ابو ایوب! غم نہ کرو، نیچے رہنا میرے لئے آرام دہ ہے کیوں کہ ملاقات کی غرض سے بڑی تعداد میں لوگوں کی آمد ورفت ہے

حضرت ابو ایوب فرماتے ہیں:ہم نے رسول اللہ کا حکم مان لیا، لیکن ایک خنک رات میں ہمارا مٹکا ٹوٹ گیا اور پانی چھت پر بہہ گیا میں اور میری بیوی جلدی جلدی لحاف سے خشک کرنے لگے کہ کہیں یہ پانی نیچے ٹپک کر رسول اللہ تک نہ پہنچ جائے۔ جب صبح ہوئی تو میں رسول الله کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں اوپر رہوں جبکہ آپ نیچے تشریف فرما ہوں۔ پھر میں نے رات مٹکا ٹوٹنے کا واقعہ بھی سنا دیا۔ آپ نے میری التجا کو قبول فرمالیا، آپ بالائی منزل میں جلوہ افروز ہونے پر رضا مند ہو گئے اور ہم نچلی منزل میں منتقل ہو گئے۔

نبی کریم تقریباً سات ماہ تک حضرت ابو ایوب انصاری  کے گھر میں قیام پذیر رہے۔ اتنے میں اس خالی جگہ پر مسجد تعمیر ہو گئی جہاں آپ کی اونٹنی بیٹھی تھی۔ رسول اللہ ان حجروں میں منتقل ہو گئے جو آپ کی رہائش کے لئے تعمیر کئے گئے تھے۔ اس طرح آپ نے بھی ان سے بے حد پیار کیا اور ہمیشہ ان کے گھر کو اپنے گھر جیسا سمجھا۔

Leave a Reply