You are currently viewing سیرت النبی ،یہو دیو ں کے رسول اکر م سے سوالا ت

سیرت النبی ،یہو دیو ں کے رسول اکر م سے سوالا ت

اب یہودیوں نے حضور اکرم کو تنگ کرنا شروع کردیا،ایسے سوالات پوچھنے کی کوشش کرنے لگے جن کے جوابات ان کے خیال میں آپ نہ دے سکیں گے مثلاً ایک روز انھوں نے پوچھا:

 اے محمد آپ ہمیں بتائیں ،روح کیا چیز ہے؟

آپ نے اس سوال کے بارے میں وحی کا انتظار فرمایا،جب وحی نازل ہوئی تو آپ نے ارشاد فرمایا:

 روح میرے رب کے حکم سے بنی ہے 

یعنی آپ نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی:

ترجمہ: اور یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ،آپ فرمادیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے بنی ہے  (سورۃ بنی اسرائیل:آیت٨٥)

پھر انھوں نے قیامت کے بارے میں پوچھا کہ کب آئے گی آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا:

اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے اس کے وقت کو اللّہ کے سوا کوئی اور ظاہر نہیں کرےگا سورة الأعراف

اسی طرح دو یہودی آپ کے پاس آئے اور پوچھا:

آپ بتائیے!اللّہ تعالٰی نے موسی کی قوم کو کن باتوں کی تاکید فرمائی تھی

جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا:

 یہ کہ اللّہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، بدکاری نہ کرو،اور حق کے سوا(یعنی شرعی قوانین کے سوا) کسی ایسے شخص کی جان نہ لو جس کو اللہ تعالٰی نے تم پر حرام کیا ہے،چوری مت کرو، سحر اور جادوٹونہ کرکے کسی کو نقصان نہ پہنچاؤ،کسی بادشاہ اور حاکم کے پاس کسی کی چغل خوری نہ کرو، سود کا مال نہ کھاؤ، گھروں میں بیٹھنے والی(پاک دامن) عورتوں پر بہتان نہ باندھو اوراے یہودیو! تم پر خاص طور پر یہ بات لازم ہے کہ ہفتے کے دن کسی پر زیادتی نہ کرو،اس لیے کہ یہ یہودیوں کا متبرک دن ہے 

یہ نو ہدایات سن کر دونوں یہودی بولے ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں اس پر آپ نے ارشاد فرمایا:

 تب پھر تم مسلمان کیوں نہیں ہوجاتے؟

انھوں نے جواب دیا:

 ہمیں ڈر ہے،اگر ہم مسلمان ہوگئے تو یہودی ہمیں قتل کرڈالیں گے

دو یہودی عالم ملک شام میں رہتے تھے انہیں ابھی نبی کریم کے ظہور کی خبر نہیں ہوئی تھی دونوں ایک مرتبہ مدینہ منورہ آئے مدینہ منورہ کو دیکھ کر ایک دوسرے سے کہنے لگے:

 یہ شہر اس نبی کے شہر سے کتنا ملتا جلتا ہے جو آخری زمانے میں ظاہر ہونے والے ہیں 

اس کے کچھ دیر کے بعد انہیں پتا چلا کہ آنحضرت کا ظہور ہوچکا ہے اور آپ مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے اس شہر مدینہ منورہ میں آچکے ہیں یہ خبر ملنے پر دونوں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے انھوں نے کہا:

 ہم آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتے ہیں ،اگر آپ نے جواب دے دیا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے

آپ نے ارشاد فرمایا:

 پوچھو!کیا پوچھنا چاہتے ہو؟

انھوں نے کہا:

 ہمیں اللہ کی کتاب میں سب سے بڑی گواہی اور شہادت کے متعلق بتایئے

ان کے سوال پر سورۂ آل عمران کی آیت ١٩ نازل ہوئی آپ نے وہ ان کے سامنے تلاوت فرمائی

ترجمہ:اللہ نے اس کی گواہی دی ہے کہ سوائے اس کی ذات کے کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں اور فرشتوں نے بھی اور اہل علم نے بھی گواہی دی ہے اور وہ اس شان کے مالک ہیں کہ اعتدال کے ساتھ انتظام کو قائم رکھنے والے ہیں ان کے سوا کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں ،وہ زبردست ہیں ،حکمت والے ہیں بلاشبہ دین حق اور مقبول،اللہ تعالٰی کے نزدیک صرف اسلام ہے

یہ آیت سن کر دونوں یہودی اسلام لے آئے اسی طرح یہودیوں کے ایک اور بہت بڑے عالم تھے ان کا نام حصین بن سلام تھا یہ حضرت یوسف کی اولاد میں سے تھے ان کا تعلق قبیلہ بنی قینقاع سے تھے جس روز آپ ہجرت کرکے حضرت ابوایوب انصاری کے گھر میں رہائش پذیر ہوئے،یہ اسی روز آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے جونہی انھوں نے آپ کا چہرۂ مبارک دیکھا، فوراً سمجھ گئے کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا نہیں ہوسکتا پھر جب انہوں نے آپ کا کلام سنا تو فوراً پکار اُٹھے:

 میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سچے ہیں اور سچائی لے کر آئے ہیں 

پھر ان کا اسلامی نام آپ نے عبداللہ بن سلام رکھا اسلام قبول کرنے کے بعد یہ اپنے گھر گئے اپنے اسلام لانے کی تفصیل گھر والوں کو سنائی تو وہ بھی اسلام لے آئے

چند یہودیوں نے آپ سے سوال پوچھا:

آپ یہ بتائیں،اس وقت لوگ کہاں ہوں گے جب قیامت کے دن زمین اور آسمان کی شکلیں تبدیل ہوجائیں گی؟

اس پر آنحضرت نے جواب دیا:

 اس وقت لوگ پل صراط کے قریب اندھیرے میں ہوں گے 

اسی طرح ایک مرتبہ یہودیوں نے حضور سے بادلوں کی گرج اور کڑک کے بارے میں پوچھا جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا:

 یہ اس فرشتے کی آواز ہے جو بادلوں کا نگران ہے، اس کے ہاتھ میں آگ کا ایک کوڑا ہے،اس سے وہ بادلوں کو ہانکتا ہوا اس طرف لے جاتا ہے جہاں پہنچنے کے لیے اللہ تعالٰی کا حکم ہوتا ہے 

ان یہودیوں ہی میں سے ایک گروہ منافقین کا تھا یہ بات ذرا وضاحت سے سمجھ لیں مدینہ منورہ میں جب اسلام کو عروج حاصل ہوا تو یہودیوں کا اقتدار ختم ہوگیا بہت سے یہودی اس خیال سے مسلمان ہوگئے کہ اب ان کی جانیں خطرے میں ہیں سو اپنی جانیں بچانے کے لیے وہ جھوٹ موٹ کے مسلمان ہوگئے اب اگرچہ کہنے کو وہ مسلمان تھے،لیکن ان کی ہمدردیاں اور محبتیں اب بھی یہودیوں کے ساتھ تھیں ظاہر میں وہ مسلمان تھے،اندر سے وہی یہودی تھے،ان لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول نے منافق قرار دیا ہے ان کی تعداد تین سو کے قریب تھی

انہی منافقوں میں عبداللہ ابن اُبیّ بھی تھا یہ منافقوں کا سردار تھا

یہ منافقین ہمیشہ اس تاک میں رہتے تھے کہ کب اور کس طرح مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکیں مسلمانوں کو پریشان کرنے اور نقصان پہنچانے کا کوئی موقع یہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے ہجرت کے پہلے سال حضرت عائشہ کی رخصتی ہوئی یعنی وہ نبی کریم کے گھر آگئیں  بعض کے نزدیک آپکی رخصتی ہجرت کے دوسرے سال ہوئی