چمڑے کی ایک تھیلی میں کھا نے پینے کا سا ما ن رکھا حضرت اسما ء نے اپنی چا در پھا ڑ کر اس کے ایک حصے سے نا شتے کی تھیلی با ند ھ دی دو سرے سے انہو ں نے پا نی کے بر تن کا منہ بند کر دیااس پر آپ ﷺ نے فر ما یا
حضرت اسما ء کی کا وش
اللہ پا ک تمھا ری اس اوڑھنی کے بد لے جنت میں دو اوڑھنیا ں دے گا اوڑھنی کو پھا ڑ کر دو کر نے کی بینا د پر حضرت اسما ء کو ذات النطا قین کا لقب ملا تعنی دو اوڑھنی والی یا د رہے نطا ق اس ڈو پٹے کو کہا جا تا ہے جیسے عر ب کی عو رتیں کا م کے دو ران کمر کے گر د با ند ھ لیتی ہیں
پھر رات کے وقت حضور اکرم ﷺ ابو بکر کے ساتھ روانہ ہو ئے اور پہا ڑ ثو ر کے پا س پہنچے سفر کے دوران ابو بکر کبھی حضور اکرم ﷺ کے آفے چلنے لگتے تو کبھی پیچھے آپ ﷺ نے در یا فت کیا ابو بکر ایسا کیو ں کر رہے ہو انہو ں نے کہا
اللہ کے رسول ﷺ میں اس با ت سے پر یشا ن ہو ں کہ راستے میں کو ئی آپ ﷺ کی گھا ت میں نہ بیٹھا ہو اس پہا ڑ کے دھا نے پر ایک غا ر تھا دنو ں غا ر کے دھا نے پر پہنچے تو ابو بکر سے عرض کیا قسم اس
ذات کی جس نے آپ ﷺ کو حق دے کر بھیجا ہے آپ ﷺ ذرا ٹھہر ئیں پہلے میں غا رمیں دا خل ہو تا ہو ں اگر غا رمیں کو ئی مو ذی کیڑا ہو ا تو وہ آپ ﷺ کو نقصا ن نہ پہنچا دے ابو بکر غا ر میں دا خل پو ئے انہو ں نے غا ر کو ہا تھ سے ٹٹو ل کر دیکھنا شروع کیا جہا ں کو ئی سو راخ ملتا اپنی چا در سے کپڑا پھا ڑ کر اسے بند کر دیتے
اللہ ہما رے سا تھ ہیں
اس طر ح انہو ں نے تم ام سو را خ بند کر دیئے مگر ایک سو را خ رہ گیا اس میں سا نپ تھا ابو بکر نے اس سو راخ پر اپنی ایڑھی رکھ دے اس کے بعد رسول اکر م ﷺ غا ر میں دا خل ہو ئے ادھر سا نپ نے اپنے سو راخ پر ایڑھی دیکھی تو ا س پر ڈنگ ما را
حضرت ابو بکر کی کا وش
تکلیف کی شدت سے حضرت ابو بکر کی آنکھو ں سے آنسو نکل آئے لیکن انہو ں نے اپنےمنہ سے آواز نہ نکلنے دی اس لئے کہ اس وقت آپ ﷺ ان کے زانو پر سر رکھ کر سو رہے تھے حضرت ابو بکر صد یق نے سا نپ کے ڈسنے کے با وجو د اپنے جسم کو ذرا سی بھی حر کت نہ دی نہ آواز نکا لی کی حضور اکرم ﷺ کی انکھ نہ کھل جا ئے تا ہم آنسو نکلے وہ کسی طر ح نہ روک سکے ان نے گر نے سے حضور اکر م ﷺ کی آنکھ کھل گئی آپ ﷺ نے ابو بکر کو روتے دیکھا تو پو چھا
ابو بکر کیا ہو ا ہے انہوں نے جو اب دیا میرے ما ں با پ بھی قر با ن آپ ﷺ پر سا نپ نے مجھے کا ٹ لیا ہے آپ ﷺ نے اپنا لعا ب دہن سا نپ کے کا ٹنے کی جگہ پر لگا یا جس سے ان کا درد اور زہر کا اثر فورا ختم ہو گیا صبح ہوئی تو آپ ﷺ کو ابو بکر کے جسم پر چا در نظر نہ آئی تو انہو ں نے دریا فت کیا ابو بکر چا در کہا ں ہے انہو ں نے بتا دیا :
آپ ﷺ میں نے چا در پھا ڑ پھا ڑ کر اس غا ر کے سوراخ بند کئے ہیں آپ ﷺ نے دعا کے لئے ہا تھ اٹھا ئے اور کہا اے اللہ ابو بکر کو جنت میں میرا سا تھی بنانا اسی وقت اللہ پا ک نے وحی کے ذریعے خبر دی کی آپ ﷺ کی دعا قبو ل کر لی گئی ہے
ا دھے قریش کے لو گ نبی کر یم ﷺ کی تلا ش میں غا ر کے قریب پہنچے ان میں سے چند سا تھی جلدی سے آگے بڑھ کر غا ر میں دیکھنے لگے غا ر کے دھا نے پر انہیں مکڑی کا جالا نظر آیا ساتھ ہی انہیں دو کبو تر نظر آئے اس پر ان میں سے ایک نے کہا کہ اس غا ر میں کو ئی نہیں ہے ایک روا یت میں یو ں آتا ہے ان میں امیہ بن خلف بھی تھا اس نے کہا اس غا ر میں جا کر دیکھو
کسی نے جو اب دیا غا ر کے اند ر جا کر دیکھنے کی کیا ضرورت ہے غا ر کے منہ پر بہت جا لے لگے ہو ئے ہیں اگر وہ اندر جا تے تو یہ جا لے با قی نہ رہتے اور نہ یہا ں کبو تر کے انڈے ہو تے
حضرت ابو بکر نے جب انہیں غا ر کے دھا نے پر دیکھا تو رو پڑے اور دبی آواز میں بو لے اللہ کی قسم میں اپنی جا ن کے لئے نہیں رو تا میں تو اس لئے رو تا ہو ں کہ کہیں یہ لو گ آپ ﷺ کو تکلیف نہ پہنچا ئیں
اس پر نبی کریم ﷺ نے ارشا د فر ما یا ابو بکر غم نہ کر و اللہ پا ک ہما رے ساتھ ہے اسی وقت اللہ پا ک نے ابو بکر کے دل کو سکو ن بخشا ان حا لا ت میں ابو بکر کو پیا س محسو س ہو ئی انہو ں نے اس کا ذکر آپ ﷺ سے کہا آپ ﷺ نے ارشا د فر ما یا اس غا ر کے درمیا ن میں جا و اور پا نی پی لو
صدیق اکبر اٹھے اور غا ر کے دھا نے پر پہنچے وہا ں اتنا پا نی ملا کے شہد سے زیا دہ میٹھا دودھ سے زیا دہ سفید اور مشک سے زیا دہ خو شبو دار تھا انہو ں نے اس میں سے پا نی پیا جب واپس آئے تو آپ ﷺ نے ارشاد فر ما یا
اللہ پا ک نے جنت کی نہر وں کے نگران فر شتے کو حکم دیا ہے کہ اس غا رکے درمیا ن میں جنت الفر دوس سے ایک چشمہ جا ری کر دیں تا کہ تم اس میں سے پانی پی سکو