یہ سن کر حضرت ابو بکر صدیق حیران ہو ئے اور عر ض کیاکہ کیا اللہ کے نز دیک میرا اتنا مقا م ہے آپ ﷺ نے ارشا د فر ما یا ہا ں ابو بکر اس سے بھی زیا دہ ہے قسم ہے مجھے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے پیغا م کے لئے نبی بنا کر بھیجا ہے جس شخص نے تم سے بغض رکھا وہ جنت میں دا خل نہیں ہو گا
سو اونٹ کا انعا م
غر ض قر یش مکہ ما یو س ہو کر غا ر سے ہٹ آئے اور سا حلی علا قے کی طرف چلے گئے سا تھ ہی انہو ں نے اعلا ن کر دیا جو شخص محمد یا ابو بکر کو گر فتا ر کر ئے یا ں قتل کرئے اسے سو اونٹ انعا م میں دیئے جا ئیں آپ ﷺ اور ابو بکر اس غا ر میں تین دن تک رہے اس دوران اس غارمیں حضرت ابو بکر صد یق کے بیٹے ابو عبدا للہ بھی آتے جا تے رہے
یہ اس وقت کم عمر تھے مگر حا لا ت کو سمجھتے تھے یہ اندھیرا پھیلنے کے بعد غا رمیں آجاتے اور منہ اند ھیرے فجر کے وقت وہا ں سے واپس آجاتے اس طر ح قر یش یہ خیا ل کر تے کہ رات انہوں نے اپنے گھر میں گزاری ہے یہ دن میں قریش کے درمیا ن جو با تیں ہو تیں ان کو سنتے اور شا م کو آپ ﷺ کے پا س پہنچ کر بتا دیتے
غلا م عا مر بن فہیرہ کا کر دار
حضرت ابو بکر صد یق کے ایک غلا م عا مر بن فہیرہ تھے یہ پہلے طفیل نا می ایک شخص کے غلا م تھے جب یہ اسلا م لے آئے تو طفیل نے ان پر ظلم ڈھا نا شروع کر دیا اس پر ابو بکر صدیق نے انہیں خر ید لیا یہ ابو بکر صدیق کی بکر یاں چراتے تھے
یہ بھی ان دنو ں غا رمیں آتے جا تے رہے شا م کو اپنی لکڑیا ں لے کر وہا ں پہنچ جا تے اور وہیں رہتے صبح منہ اندھیرے عبد اللہ کے جا نے کے بعد یہ بھی وہا ں سے اپنی بکر یا ں اسی راستے سے لا تے تا کہ ان کے قد مو ں کے نشا نا ت مٹ جا ئیں ان تین راتوں تک ان کا برابر یہ ہی معمو ل رہا یہ ایسا حضرت ابو بکر صد یق کی ہد ایت پر کر تے تھے
حضرت عبد اللہ کو بھی حضرت ابو بکر نے ہی حکم دیا تھا کہ وہ دن پھر قر یش کی با تیں سنیں اور رات کو بتا یا کر یںاور عامر بن فہیر ہ کو بھی یہ ہی ہد ایت تھی کہ دن پھر بکر یا ں چرایا کر یں اور شا م کو غا رمیں دو دھ پہنچا دیا کر یں
حضرت ابو بکر صدیق کی بیٹی اسما ء بھی شام کے وقت ان کے لئے کھا نی پہنچا تی تھیں ان تین کے علا وہ غا ر کا کسی کو نہیں پتہ تھا تین دن اور رات گزرے کے بعد آپ ﷺ نے حضرت اسما ء سے فر ما یا اب تم علی کے پا س جا و اور انہیں غا ر کا بتا و اور انہیں کہو کہ کسی رہبر کا انتظا م کریں آج رات کا پہر گزرت کے بعد وہ رہبر یہا ں آجا ئے
رہبر ہجرت کے لئے
حضرت اسما ء حضرت علی کے پا س گئیں انہیں آپ ﷺ کا پیغام دیا انہو ں نے فو را اجرت کا ایک رہبر کا انتظا م کیا ان کا نا م اریقط بن عبدا للہ لیثی تھا یہ رہبر رات کے وقت پہنچا نبی کر یم ﷺ نے جو ہی اونٹنی کے بلبلا نے کی آواز سنی آ پ ﷺ فو را ابو بکر صد یق کے ساتھ غا ر میں سے با ہر آگئے اور رپبر کو پہچا ن لیا آپ ﷺ اور ابو بکر اونٹو ں پر سوار وہ گئے
اس سفر میں حضرت ابو بکر نے اپنے بیٹے عبد اللہ کے ذریعے اپنے گھر سے وہ رقم منگو ا لی تھی جو مو جو د تھی یہ رقم چا ر پا نچ ہزار درہم تھے جب ابو بکر مسلما ن ہو ئے تو ان کے پاس 40 سے 50 ہزار درہم تھے گو یا انہو ں نے یہ تما م رقم اللہ کی راہ میں خر چ کر دی تھی با قی جو بچ گئی تھی وہ بھی منگو ا لی تھی ان کے وا لد ابو قحا فہ اس وقت تک مسلما ن نہیں ہو ئے تھے ان کی بینا ئی جا چکی تھی گھر آئے تو اپنی پو تی حضرت اسما ء سے کہنے لگے
حضرت ابو بکر کے وا لد ابو قحا فہ
میرا خیا ل ہے کہ ابو بکر اپنے ما ل کی وجہ سے تمھیں مصبیت میں ڈال گیا ہے (مطلب یہ کہ جا تے ہو ئے سارے پیسے لے گیا ہے ) یہ سن کرحضر ت اسما ء نے کہا نہیں با با وہ ہما رے لئے بہت خیر و بر کت چھو ڑ کر گئے ہیں
حضرت اسما ء کہتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے کچھ کنکر ایک تھیلے میں ڈا لے اور ان کو طا ق میں رکھ دیا جہا ں میرے والد پیسے رکھتے تھے پھر اس تھیلی پر کپڑ ا ڈا ل دیا اور پھر اپنے دادا کا ہا تھ اس تھیلی پر رکھتے ہو ئے کہا
یہ دیکھیں روپے یہا ں رکھے ہیں ابو قحا فہ نے اپنا ہا تھ رکھ کر محسو س کیا اور بو لے اگر وہ ما ل تمھا رے لئے چھو ڑ گئے تو فکر کی با ت نہیں یہ مال تمھا رے لئے کا فی ہے حا لا ں کہ یہ حقیقت تھی کہ والد صا حب ہما رے لئے کچھ بھی نہیں چھو ڑ کر گئے تھے
نبی کر یم ﷺ کے ہجر ت کر جا نے کی خبر ایک صحا بی حضر ت حمزہ بن جندب کو ملی کو کہنے لگے اب میرے مکہ میں رہنے کہ کو ئی وجہ نہیں ہے پھر انہو ں نے اپنے گھر والو ں کو بھی سا تھ چلنے کا حکم دیا یہ گھرا نہ مد ینہ منو رہ کے لئے نکل کھڑا ہو اابھی تتعیم کے مقام پر پہنچے کہ حضرت حمزہ انتقا ل کر گئے ا س مو قع پر اللہ پا ک نے سو رہ النسا کی یہ آیت نا زل فر ما ئی : اور جو شخص اپنے گھر سے اس نیت سے نکل کھڑا ہو ا کہ اللہ اور اس کے رسول کی طر ف ہجرت کر ئے گا پھر اسے مو ت آپکڑے تم بھی اس کا ثو اب اللہ پا کے ذمے ثا بت ہو گا اور اللہ پاک بڑی مغفر ت کر نے والا اور بڑی رحمت کر نے والا ہے