عرب کا سردار
یہ لشکر جب مکہ کے قرب وجو ار میں پہنچا تو ابر ہاہ نے اپنی فو ج کو حکم دیا کہ ان لو گو ں کے جا نو رلو ٹ لئے جا ئیں اس کے حکم پر فو جیو ں نے جا نور پکٹ لئے ان میں عبد المطلب کے اونٹ بھی تھے نفیل بھی اس لشکر ابر ہہ کے ساتھ مو جود تھا اور یہ عبد المطلب کا دوست تھا عبد المطلب اس سے ملے اونٹو ں کے سلسلے میں با ت کی نفیل نے ابرہہ سے کہا قریش کا سردار عبد المطلب ملنا چا ہتا ہے یہ شخص تما م عرب کا سردار ہے شرف اور بزرگی اسے حا صل ہے لو گو ں میں اس کا بہت اثر ہے لو گو ں کو بہت اچھے اچھے گھو ڑے دیتا ہے انہیں عطیا ت دیتا ہے کھا نا کھلا تا ہے
یہ گو یا عبد المطلب کا تعا رف تھا ابر ہہ نے انہیں ملا قات کے لئے بلا لیا ابرہہ نے ان سے پو چھا بتا ئیں آپ کیا چا ہتے ہیں انہو ں نے جو اب دیا میں چا ہتا ہو ں کہ میرے اونٹ مجھے واپس مل جا ئیں اس کی با ت سن کر ابر ہہ بہت حیران ہو ا س نے کہا : مجھے تو بتا یا گیا تھا کہ آپ عرب کے سردار ہیں بہت عزت اور بزرگی کے ما لک ہیں لیکن لگتا ہے مجھ سے غلط بیا نی کی گئی ہے کیو نکہ میرا خیا ل تھا کہ آپ مجھ سے بیٹ اللہ کے با رے میں با ت کر یں گے لیکن آپ نے تو سرے سے اس کی با ت کی نہیں کی اور اپنے اونٹ کا رونا لے کے بیٹھ گئے یہ با ت ہو ئی اس کہ با ت سن کر عبد المطلب بو لے آپ میرے اونٹ مجھے واپس دے دیں بیتاللہ کے ساتھ جو چا ہیں کر یں اس لئے کہ اس گھر کا ایک پر وردگا ر ہے وہ خود اس کی حفا ظت کر ے گا مجھے اس کے لئے پر یشا ن ہو نے کی ضرورت نہیں
ابر ہہ نےحکم دیا
اس کی با ت سن کے ابر ہہ نےحکم دیا اس کے اونٹ واپس دے دیئے جا ئیں جب انہیں ان کے اونٹ واپس مل گئے تو انہوں نے اس کے سمو ں پر چمڑے چڑھا دیئے ان پر نشان لگا دئے ان کو قربا نی کے لئے وقف کر کے حرم میں چھو ڑ دیا تا کہ پھر انہیں کو ئی پکڑ لے تو حرم کا پر وردگا ر اس پر غضب نا ک ہو
حرا پہا ڑ
پھر عبد المطلب حرا پہا ڑ پر چڑھ گئے ان کے ساتھ ان کے کچھ دوست تھے انہو ں نے اللہ سے درخو است کی اے اللہ انسا ن اپنے سا ما ن کی حفا ظت خو د کر تا ہے تو اپنے سا ما ن کی حفا ظت کر
ادھر سے ابر ہہ اپنا لشکر لے کر آگے بڑھا وہ خو د ہا تھی پر سوار لشکر کے درمیا ن مو جو دتھا ایسے میں اس کے ہا تھی نے آگے بڑھنے سے انکا ر کر دیا وہ زمین پر بیٹھ گیا ہا تھی با نو ں نےا سے اٹھا نے کی کو شش کی لیکن وہ نہ اٹھا انہو ں نے اس کے سر پر ضربیں لگا ئی آنکس چبھوئے مگر وہ کھڑا نہ ہو اکچھ سو چ کر انہو ں نے اس کا رخ یمن کی طرف کیا تو وہ فو را اس طرف چلنے لگا اس کا رخ پھر مکہ کی طرف کیا گیا ہا تھی با نو ں نے یہ تجر بہ با ر بار کیا آخر ابرہہ نے حکم دیا ہا تھی کو شراب پلا ئی جا ئے تا کہ نشے میں اسے کو ئی ہو ش نہ رہے اور ہم اسے مکہ کی طر ف آگے بڑھا سکیں چنا نچہ اسے شراب پلا ئی لیکن اس پر بھی اس کا اثر نہیں ہوا
ابر ہہ کے ہا تھی
ابر ہہ کے ہا تھی کو اٹھا نے کی مسلسل کو ش جا ری تھی کہ اچا نک سمندر کی طرف سے اللہ نے ابا بیلو ں کو بھیج دیا وہ ٹڈیو ں کے جھنڈ کی طر ح آئے دوسری طر ف عبد المطلب مکہ کی طرف داخل ہوئے حرم میں پہنچے اور کعبہ کے دروازے کی زنجیر پکڑ کر ابر ہہ اور اس کے لشکر کے خلا ف فتح کی دعا ما نگی ان کی دعا کے الفا ظ یہ تھے
اے اللہ یہ بند ہ اپنے قا فلے اور اپنی جما عت کی حفا ظت کر رہا ہے تو اپنے گھر یعنی بیت اللہ کی حفا ظت فر ما ابر ہہ کالشکر فتح نہ حا صل کر سکے ان کی طا قت تیری طا قت کے آگے کچھ بھی نہیں آج صلیب کا میا ب نہ ہو ں صلیب کا لفظ اس لئے بو لا کہ ابر ہہ عیسا ئی تھا اور صلیب کو عیسا ئی اپنے نشان کے طو رپر سا تھ لے کے چلتے ہیں
سورہ الفیل
اب انہو ں نے اپنی قوم کو ساتھ لیا اور ابر ہہ پہا ڑ پر چڑھ گئے کیو نکہ ان کا خیا ل تھا کہ وہ ابر ہہ کا مقا بلہ نہیں کس سکیں گے اور پھر اللہ پا ک نے پر ندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیئے یہ پر ندے چڑیا کی طرح بڑے تھے ہر پرندے کی چونچ میں تین تین کنکر تھے جو ہی یہ پتھر ان پر گرے ان کی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے بلکل اسی طر ح جیسے آج کل کسی جگہ اوپر سے بم گرایا جا ئے تو جسمو ں کے ٹکڑے اُڑ جا تے ہیں ابر ہہ کا ہا تھی محمد د ان کنکر یو ں سے محفو ظ رہا با قی سب ہا تھی تیس نہس ہو گئے یہ ہا تھی 13 عدد تھے سب کے سب کھا ئے ہو ئے نحو ست کی ما نند ہو گئے جیسا کہ سورہ الفیل میں آتا ہے
ابر ہہ اور اس کے ساتھی یہ منظر دیکھ کر بری طر ح بھا گے لیکن پر ندوں نے ان کو بھی نہ چھو ڑا ابر ہہ کے با رے میں طبقات میں لکھا ہے کہ اس کے جسم کا ایک ایک عضو الگ ہو کر گر تا گیا یعنی وہ بھا گ رہا تھا اور اس کے جسم کا ایک ٹکڑا الگ ہو کر گر رہا تھا دوسری طر ف عبد المطلب اس انتطا ر میں تھے کہ کب حملہ ہو تا ہے لیکن جب حملہ آور مکہ میں دا خل نہ ہو ئے تو وہ حا لا ت معلو م کر نے کے لئے نیچے اترے مکہ سے با ہر نکلے تب انہوں نے دیکھا سا را لشکر تبا ہ ہو چکا ہے ما ل غنمیت ان کے ہا تھ لگا بے شما ر سا ما ن ہا تھ آیا ما ل میں سو نا چا ندی بھی بے تحا شا تھا