سرا قہ خو د فر ما تے ہیں :
آخر جب یں نے رسو ل اللہ ﷺ کی قرآت سنی ، نبی کر یم ﷺ می ری طرف کو ئی تو جہ نہیں کر رہے تھے لیکن ابو بکر بار با ر مڑ کر دیکھتے تھے ، تو میرے گھو ڑے کے آگے کے دو نو ں پا ؤں زمین میں دھنس گئے تو مین اس کے اوپر گر پڑا اور اسے آ ٹھنے کے لئے ڈانٹا اور اسے اٹھا نے کی کو شش کی لیکن وہ اپنے پا ؤ ں زمین میں سے نہیں نکلا سکا ۔ بڑ ی مشکل سے جب اس نے کھڑ ے ہو نے کی کو شش کی تو اس کے آگے کے پا ؤ ں سے منتشر سا غبا ر اٹھ کر دھو ئیں کی طرح آسما ن پر چڑ ھنے لگا ۔ میں نے تیر سے فا ل نکا لی لیکن اس مر تبہ بھی وہی فا ل آئی جسے میں پسند نہیں کر تا تھا ۔ اس وقت میں نے نبی کر یم ﷺ کو اما ن کے لئے پکا را ۔ میری آواز پر وہ لو گ کھڑ ے ہو گئے اور میں گھو ڑے پر سوار ہو کر ان کے پا س آیا ۔ ان تک بر ے ارادے کے ساتھ پہنچنے سے جس طرح مجھے روک دیا گیا تھا ۔ اسی سے مجھے یقین ہو گیا تھا کہ رسو ل اللہ ﷺ کی دعوت غا لب آ کر رہے گی ۔ اس لیے میں نے نبی کر یم ﷺ سے کہا کہ آپ کی قو م نے آپ کو ما رنے کے لئے 100 اونٹو ں کے انعا م کا اعلا ن کیا ہے ۔ پھر میں نے آپ ﷺ کو قر یش کے ارادو ں کی اطلا ع دی ۔ میں نے ان حضرا ت کی خد مت میں کچھ تو شہ اور سا ما ن پیش کیا لیکن آپ ﷺ نے اسے قبو ل نہیں فر ما یا مجھ سے کسی اور چیز کا مطا لبہ بھی نہیں کیا صر ف اتنا کہا کہ یما رے متعلق رازداری سے کا م لینا لیکن میں نے کہا کہ آپ میرے لیے ایک امن کی تحر یر لکھ دیجیئے ۔ آپ ﷺ نے عا مر بن فہیرہ ؑ کو حکم دیا انہو ں نے چمڑے کے ایک رقعہ پر تحر یر امن لجھ دی ۔ اس کے بعد رسو ل اللہ ﷺ آگے بڑ ھے ۔
آخر کا ر آپ مدینہ کے قر یب پہنچ گئے ۔ مد ینہ سے قر یبا 3 کلو میٹر پہلے ایک علا قہ میں آپ ﷺ نے قیا م کیا ۔ وہاں ایک مسجد بنا ئی جس کا نا م مسجد قبا ء ہے ۔ اس مسجد کی اتنی فضیلت ہے کہ آپ ﷺ نے فر ما یا :
جس نے اپنے گھر سے وضو کیا اور مسجد قبا ء آیا اور وہا ں دو رکعا ت ادا کیں تو یہ عمر ہ کی طرح ہیں ۔
اللہ پاک ہمیں یہ سعا دت نصیب فر ما ئے ۔ آمین
پھر وہاں سے مد ینہ روانہ ہو ئےجہا ں آپ کا بڑ ا محبت و گر م جو شی سے استقبا ل کیا گیا ۔
یثر ب کے قبا ئل اور با بے عبداللہ کی کہا نی
آپ ﷺ نے جس علا قی کی طرف ہجر ت کی اس کے با رے میں جا ننا ضروری ہے تا کہ ہمیں اندازہ ہو کہ آپ ﷺ نے کن حا لا ت میں اسلا م کی نشرواشا عت کی ۔
یہا ں آبا و قبا ئل کا تعا رف ؛
ع رب میں ایک کھجو روں کی بستی تھی جہا ں دو بھا ئی اویس اورخز رج رہتے تھے ۔ ان کی آل اولا د بھی یہیں رہتی تھی ۔ پھر ہو یو ں کہ یہو د کے تین بڑ ے یہا ں آ گئے ۔
یہو د قبا ئل کی آمد کا قصہ :
ان کے یہ آن انے کا قصہ بھی بر اعجیب ہے ۔ یہو د کو ایک با دشا ہ بخت نصر نے بڑ ی تعداد میں قتل کر دیا تھا ۔ ان کی کتا بو ں میں لکھا تھا کہ کھجو رو ں کی بستی میں ایک نبی آئیں گے تو انہیں غلبہ حا صل ہو گا ۔
یہو د کے با رہ بڑ ے قبا ئل اپنے علا قوں سے جا ن بجا کر عر ب میں آ گئے ۔ یہا ں دو علا قے کھجو روں کے حو الے سے مشہو ر تھے ۔ ایک خیبر اور دوسرا وہ جہا ں اوس و خزرج رہتے تھے ۔
نو قبیلے خیبر میں آبا د ہو گئے اور تین یہا ں پر ۔
آبا د وبا ئل کا ذریعہ معا ش :
اوس و خز رج کے قبا ئل کی آمد کا ذریعہ کھجو رو ں کے با غا ت تھے ۔
جبکہ یہو د و قبا ئل تجا رت کر تے تھے ۔ ان میں اس وقت کا جنگی اسلحہ یعنی تلوا ریں ، نیذے تیر ، کما ن ، کد الیں وغیر ہ کا رجحا ن زیا دہ تھا ۔
اوس وخز ر ج کی لڑا ئیا ں ؛
اوس خز رج کے در میا ن اکثر جڑ پین ہو جا تی تھیں ۔ قینقا ع اور نضیر کا تعلو خزوج سے اور قر یظہ کا تعلق اوس سے تھا ۔
یہو دیو ں کی فرا ڈیا ں یعنی چا ل پا زی :
جب بھی ان دو نو ں میں لڑا ئی ہو تی ۔ یہ اپنے اپنے دو ست یہو دی قبیلے کے پا س جا تے اور ان سے مہنگے دا مو ں اسلحہ خر ید تے ۔ حتی کہ کئی کئی سا ل کی ہو نے والی فصلیں تک گر وی رکھوا کر اسلحہ لے لیتے ۔
اس طرح یہو دی ان کی لڑا ئی سے فا ئدہ اٹھا تے مثلا خز رج والے جب قینقا ع اور نضیر کے پا س جا تے کہ ہما ری اوس سے لڑا ئی ہو گئی ہے آپ ہمیں اتنا سلحہ دے دو تو وہ 10 کی چیز کا 100 ما نگتے ۔ جب وہ کہتے کہ ہما رے پا س اتنا ما ل نہیں تو وہ انہیں کہتے کہ تم آئندہ پا نچ یا ں دس سال کی کھجو ریں ہمیں دے دینا تو ہم تمہیں اسلحہ دے دیتے ہیں تو وہ ما ن جا تے ۔ اسی طرح اوس والے قریظہ سے اسلحہ کے لیتے ۔
انسا ن کی جب لڑا ئی ہو تی ہے تو انسا ن غسے میں پا گل ہو جا تا ہے اور اسے اپنے اچھے بر ے نتیجے کی پر وا نہیں رہتی ۔ یہی حا ل اوس و خز رج کا بھی تھا ۔
لڑا ئیو ں میں ان کے بند ے بھی ما رے جا تے اور کئی کئی سا ل ہو نے والی فصلیں بھی یہو د کو دے دیتے ۔ اسی طرح یہو د آ را م سے بیٹھ کر کھا تے اور جب اوس وخز رج کو کھجو روں کی ضرو رت ہو تی تو انہیں کی فصلیں انہیں سو د پر بھی دے دیتے ۔ اسی لئے جب بھی ان دو نو ں وبیلو ں کی لڑ ائی ختم ہو نے لگتی تو یہو د ی قبیلے انہیں بھڑکا کر پھرلڑا دیتے ۔