مسلمان بیوی:
سیدہ اُم کجہ انصا ر کی عالم فا ضل خاتون تھیں ان کے شوہر کا نام اُوس بن ثابت انصاری تھا جو بند عدی بن عمرو بن ما لک قبیلےکا چشم وچراغ تھا ان کا خاندانی تعلق مد ینہ منورہ میں مشہور و معروف قبیلے بنو نجا ر تک پہچا نتا ہے
جب رسول اللہ ہجرت کر کے مد ینہ منورہ تشریف لا ئےتو اُوس بن ثا بت بھی ہجرت کر نے والوں میں شا مل تھے اور انہوں نے مسجد ِ نبوی کی تعمیر میں بھی حصہ لیا دونوں میا ں بیوی بہترین شریک حیا ت ثابت ہو ئےاور مل کر ایک مضبوط گھرانے کی بنیا د رکھی
سیدہ اُم کجہ خواتین کے ساتھ پردے میں رہ کر رسول اللہ کی مجالس میں شریک ہو ا کر تی تھیں تا کہ احادیث رسول سے بہرہ ور ہوں سکیں سیدنا اُوس بھی با قا عدگی سے شرکت کیا کر تے تھےاور رسول اللہ کی اما مت میں نما ز بھی ادا کیا کرتے تھے
زمانہ جا ہلیت میں ان کے ہاں ایک بچی کی پیدائش ہو ئی اس دور میں رواج تھا کہ بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جا تا تھامگر سیدنا اُوس نے ارادہ کیا تھا کہ ہم بچی کو دفنا ئیں گے نہیں اور بچی کی تر بیت بھی بہتر ین طریقے سے کریں گے اُم کجہ بھی جب گھر کے کام کاج اور بیٹی کے فرائض سے فا رغ ہو کر قرآنی آیات کو یا د کر تیں تھیں جو ان کے شوہر کھجور کی کھال اور چمڑے کے ٹکڑوں پر لکھا کر تی تھیں.
میدان ِ جنگ:
ایک دن سیدنا نے اپنی بیوی کو آکر بتا یا کہ وہ رسول اللہ کے ساتھ میدانِ جنگ میں روانہ ہو رہےتھےانھوں نے جنگی لبا س زیب تن کیا ہتھیار تھاما اور سےسیدہ نے شوہر کے حق میں دعا کی کہ انہیں کا میا بی نصیب ہو اور صحیح سلا مت واپس آئیں.
حق کا با طل پر غلبہ :
جنگ ِبدر اسلامی تا ریخ کی اہم جنگ ہے جس میں کفار کی تعداد زیا دہ اور مسلما نوں کی کم ہو نے کے با وجو د اللہ نے اپنے فضل و کرم سے مسلمانوں کو کا میا بی دی سیدنا اوس نے بھی ڈٹ کر دشمنوں کا مقابلہ کیا اور اسلام کا جھنڈا بلند و با لا کیا.
بہا در مجا ہدین کی واپسی:
جس دن سیدنا اوس جنگ ِ بدر کے لیے روانہ ہوئےاور جیسے بہا در مجا ہدین جنگ سے لو ٹے تو سیدہ بھی اپنی بچیوں کو لے کر شو ہر کے انتظا ر اور استقبا ل کے لیے کھڑی تھیں کیا دیکھتی ہیں کہ خراماں خراماں ان کی جا نب قدم بڑھا رہے ہیں سیدنا اوس اپنے خاندان سے آملے اور بچیوں کو سینے کو لگا یا اور منہ چُوما.
اوس بن ثا بت کی شہا دت:
جنگ کے میدان مین جہاں بہت سے صحا بی جا مِ شہا دت نو ش کر ئے تھے وہی اوس بھی اپنی تلوار تھا مے میدان ِ جنگ کی طرف بڑھے سیدہ انہیں دیکھ رہی تھیں دیکھتے ہی دیکھتے شو ہرنظروں سے اوجھل ہو گئےاور جنگجوں کی بھیڑ میں گُم ہو گئے
جب لڑائی کی تھر تھر اہٹ ختم ہو ئی تو سیدہ نے شہدا میں شوہر کی لا ش کو تلا ش کیا اور بیک وقت ان کے دل میں حزن و ملال اور مسرت وشا دما نی کی کشمکش ہو نے لگی حزن و ملال تو اپنی بیٹیوں کے لیے تھا کہ اُن کے سر سے با ت کا سا یہ اُٹھ گیا ہے اور شوہر کی شہا دت کے اعلی و ارفع درجے کی مسرت بھی تھی.
نزول قرانی آیا ت:
سیدہ ام کجہ کے شوہر کی شہا دت کی بعد شو ہر کا چچا زاد بھا ئی آیا اور تما م جا ئیدداد ہڑپ کر لی بچیوں اور بیوہ کو بے آ سرا کر دیا سیدہ تو ابھی شوہر کے غم سے با ہر نہ آئیں تھیں کہ دوسری طرف معا شی بحران سیدہ یہ معا ملہ لے کر رسول اللہ کی خدمت میں پیش ہو ئیں
اور تما م صورت حال سے آگا ہ کیا نبی کر یم نے سیدنا اوس کے چیچا زاد بھا ئی کو بلا یا اور معا ملے کے متعلق پو چھا تو اُس نے کہا کہ:اے اللہ کے رسول اُس کو ئی بیٹا نہیں جو گھو ڑے پر سوار ہوجو خاندان کا جو جھ اُٹھا سکے اور دشمن سے لڑ سکے زما نہ جا ہلیت میں اگر کو ئی شخص فو ت ہو جا ئےتو اُس کے ما ل میں سے عورت اور بچوں کو کچھ نہیں دیا جا تا.رسول اللہ نے فرمایا جا ؤ میں انتظا ر کر تا ہوں اللہ پاک ان عورتوں کے با رے مین کیا فرما تے ہیں.سیدہ اُم کجہ وہیں بیٹھے حکم اللہ کا انتظار کر رہی تھیں اور وہ جا نتی تھیں جس کے اسم مبارک ہی عا دل و حا کم ہیں وہ ذات ضرور انصا ف کرے گا.
اس مو قع پر اللہ نے آیا ت نا زل کئیں ارشا د با ری تعالٰی ہے:
ترجمہ: مردوں کے لئے اس مال میں حصہ ہے جو ماں با پ اور قریبی رشتے داروں نے چھوڑا ہوا ہو عورتوں کے لئے اس مال میں حصہ ہے جو ماں با پ اور قریبی رشتے داروں نے چھوڑا ہوا ہوخواہ تھو ڑا ہو یا ں بہت اور یہ حصہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے اور تقسیم کے موقع پر کنبے کے لو گ یتیم اور مسکین آئیں تو ما ل میں سے ان کو بھی کچھ دو اور ان کے ساتھ بھلے ما نسوں کی سی با ت کر ولو گو ں کو اس ابا ت کا خیا ل کر کے ڈرنا چا ہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولا د چھو ڑتے تو مر تے وقت ان کو اپنے بچوں کے حق میں کو ن سےاندیشے لا حق ہو تےپس چا ہیےکہ انہیں اللہ کا خو ف ہو نا چا ہیئےاور راستی کی با ت کر یں جو لو گ یتیموں کا ما ل کھا تے ہیں وہ لو گ اپنے پیٹوں میں آگ بھر تے ہیں اور وہ جہنم کی بھڑکتی ہو ئی آگ میں پھینکے جا ئیں گے تمھا ری اولا د کے با رے میں اللہ تمہیں ہدایت کر تا ہے کہ مر دکا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے اگر میت کی وارث دو یا ں دو سے زائدلڑکیا ں ہوں تو انہیں تر کے کا دو تہا ئی دیا جا ئے اگر ایک ہی لڑ کی وارث ہو تو اسے تر کے کا آدھا حصہ دیا جا ئےاگر میت صا حب اولا د ہو تو اسے والدین کے ترکے میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملنا چا ہیے اور اگر وہ صا حب اولا د نہ ہوں اور ما ں با پ ہی وارث ہوں تو ما ں کو تیسرا حصہ دیا جا ئےاور اگر میت کے بھا ئی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصے کی حقدار ہو گی اور یہ سب حصے اس قت نکا لے جا ئیں گے جب وصیت جو میت نے کی ہو پو ری کر دی جا ئےقرض جو اس پر ہے ادا کر دیا جا ئے تم نہیں جا نتے کہ تمہا رے ماں با پ اور تمھا ری اولا دمیں سےبا لحا ظ نفع کون تم سے قریب تر ہے یہ حصے اللہ نے مقرر کر دئے ہیں اور اللہ ساری حقیقتوں سے واقف اور خوب جا نتا ہے ( سورۃ النسا)ان آیا ت کے نزول کے بعدرسول اللہ نے سیدہ کجہ اور ان کی دونوں بیٹیوں اور ان کے با پ کے چیچا زاد بھا ئی کو بلا یا اور آیا ت کے حکم کے مطا بق ورثے کی تقسیم کی،اللہ سیدہ اُم کجہ کو اپنے عرش اور رحمت کے سا ئے میں رکھےآمین یا رب العالمین .