You are currently viewing سیده ام ایوب انصاری
syeda umm ayyub ansari khandani in urdu

سیده ام ایوب انصاری

خاندانی پس منظر :

ان کا نام اُم ایوب تھا والد کا نام قیس بن سعد تھا رشتہ ازدواج میں خالد بن ولید کے ساتھ مسئلک ہوئیں ان کی کنیت ابو ایوب انصاری تھی انصار کے معززین میں ان کا شمار ہوتا تھا.

قبول اسلام:

جب دینِ اسلام پھیلنے لگا اور ہر قبیلے ہر گھر میں رسول اللہ اور اسلام کی مقبولیت ہوئی تو ان کے خاوند بھی رسول اللہ سے ملاقات کے لیے مکہ کی طرف روانہ ہوئے کہ جانے تو کون ہیں وہ ایک اللہ کی دعوت دے رہے ہیں اور بتوں کی پوجا چھوڑنے کا حکم فرما رہے ہیں خاوند کا یہ جوش اور جز بہ دیکھ کر سیدہ کے دل میں بھی اسلام کی اُمنگ جاگی اور سوچا کہ کاش ! یہ نبی اپنی حکمت و دانائی سے کام لیتے ہوئے اوس وخزرج کی اس بھڑکتی ہوئی آگ کو بجھا دیں ان کے سینوں میں بھی امن داخل ہو جائے اور وہ خیر اور بھلائی کے راستے پر چل پڑیں اور خاوند کے لیے دعا گو تھیں کہ وہ خیر عافیت سے لوٹ آئیں سیدہ کے شوہر کو گھر سے گئے کافی دن گزر گئے تو اُن کی شوہر کو لے کر بے چینی بڑھنے لگی اور عجیب اور غریب خیالات دل و دماغ میں آنے لگے کافی دن بعد اچانک سے دروازے پر دستک ہوئی تو سیدہ فورا پہچان گئیں کہ ان کے شوہر ہیں کیونکہ ان کا دروازے پر دستک دینے کا طریقہ دوسروں سے کچھ الگ تھا. سیدہ ابھی سوچ ہی رہی تھیں کہ پہلے آرام کرنے دوں بعد میں سفر اور رسول اللہ سے ملاقات کی تفصیلات معلوم کروں گی لیکن سیدنا ابوایوب نے بغیر آرام کئے حبیب کبریا کے بارے میں بتانا شروع کر دیا اور بتایا کہ رسول اللہ کی شخصیت اور اُن کے تبلیغ دین سے متاثر ہو کر انہوں نے اور ان کے تمام ساتھیوں نے دین اسلام قبول کر لیا ہے اُم ایوب کا چہرہ خوشی سے دمک اُٹھا اور والہانہ انداز میں بولیں میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں دنوں میاں بیوی نے اپنا وقت خوش اسلوبی کے ساتھ گزارا اور ان کا گھر امن اور سکون کا گہوارہ بنا.

ہجرت:

جب رسول اللہ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو تمام اہل مدینہ خوشی سے نہال تھے اور رسول اللہ کا جوش وخروش سے استقبال کرنے کے لئے تیار تھے جب رسول اللہ مدینہ پہنچے تو اہل مدینہ نے والہانہ استقبال کیا اور دلفریب ترانے فضا میں گونجنے لگے
ہم پر چودویں کا چاند جنوبی پہاڑوں سے طلوع ہوا ہم پر اللہ کا شکر ادا کرنا واجب ہے کیسا عمدہ دین اور یہ تعلیم ہے اے ہم میں معبوث ہونے والے! تیری اطاعت ہم پر فرض ہے خوش آمدید ! اے داعی الی الخیر ! تیرے آنے سے مدینہ کو شرف ملا ہر کوئی رسول اللہ کی اونٹنی کی لگام تھا ننا چاہتا تھا اور نبی کے پیارے وسول کو اپنے گھر کا مہمان بنانے کا خواہشمند تھا.

اہل مدینہ کے مہمان :

سید المرسلین نے یہ جانا کہ ہر کوئی ان کو اپنا مہمان بننا چاہتا ہے تو رسول اللہ نے فرمایا کہ میری اونٹنی جس گھر میں گا کر رکے گی اُس گھر میں قیام فرما ئیں گے اللہ کی کرنی ایسی ہوئی کہ اونٹنی ام ایوب کے گھر جا کر ٹھہری یہ منظر دیکھ کر سیدہ کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آ گئے سید نا ابوایوب نے فرمایا ! اے اللہ کے رسول میرے مان باپ آپ پر قربان اور سید نا ابوایوب اپنے عظیم ترین مہمان کا سامان اُٹھا کر اندر لے گئے مسجد نبوی کی تعمیر اور ازواج مطہرات کے حجرے تعمیر ہونے تک اللہ کے نبی سید نا ابو ایوب کے گھر ہی تشریف فرمار ہے.

عبادت:

ان دونوں میاں بیوی نے زبانی دین اسلام کا اقرار نہیں کیا بلکہ ملی بھی اس بات کی تصدیق کی رات کو بہت تھوڑ اوقت سوتے سیدہ فرضی روزوں کے علاوہ نفلی روزوں کا بھی اہتمام فرماتی جب سید نا ابو ایوب انصاری رسول اللہ سے کوئی آیت سن کر آتے تو ام ایوب کو بھی سناتے اور سیدہ کا قرآن کو اپنا بہترین ہم نشین خیال کرتیں تھیں فقراء اور مساکین کے ساتھ بھی ان کا بہترین حسن سلوک تھا مسلمانوں کی تکلیف دور کرنا ان کا مقصد حیات بن چکا تھا. اللہ ین دونوں کے درجات بلند فرمائے اور جزائے خیر سے نوازے آمین.