یہ سن کر ابو بکر صدیق بو لے اللہ کی قسم اس وقت تک کچھ نہیں کھا وں پیو ں گا جب تک رسول اللہ ﷺ سے نہ مل لو ں ان دنو ں نے کچھ دیر انتظا ر کیا تا کہ با ہر سکو ن ہو جا ئے آخر یہ دنو ں انہیں سہا را دے کر لے چلیں اور دار ارقم پہنچ گئیں جو ہی نبی کر یم ﷺ نے ابو بکر کی یہ حا لت دیکھی آپ ﷺ کو بے حد صد مہ لگا آپ ﷺ نے آگے بڑھ کر گلے سے لگا یا با قی مسلما نو ں نے بھی انہیں گلے سے لگا یا اور بو سہ دیا پھر حضرت ابو بکر نے آپ ﷺ نے عر ض کی آپ ﷺ پر میرے ما ں با پ قر با ن اے اللہ کے رسول مجھے تو کچھ نہیں ہو ا سو ائے میرے چہرے پر چو ٹیں آئیں یہ میری والدہ میرے ساتھ آئیں ہیں ممکن ہے کہ اللہ پا ک آپ ﷺ کے کر م اور طفیل سے انہیں جہنم کی آگ سے بچا لے
ابو بکر کی والدہ کے لئے دعا
نبی کر یم ﷺ نے ان کی والدہ کے لئے دعا فر ما ئی پھر انہیں اسلا م کی دعوت دی وہ اسی وقت ایما ن لے آئیں جس سے ابو بکر اور تما م صحا بہ بہت خو ش ہو ئے
ایک روز صحا بہ نبی کر یم ﷺ کے گر د جمع تھے ایسے میں کسی نے کہا اللہ کی قسم اللہ ک قسم قریش نے آج تک نبی کر یم ﷺ کے علا وہ کسی اور کی زبا ن سے بلند آواز میں قر آن پا ک نہیں سنا اس لئے تم میں سے کو ن ہے جوان کے سا منے بلند آواز میں قر آن پا ک پڑھے
یہ سن کر عبد اللہ بن مسعو د بو ل اٹھے میں ان کے سا منے بلند آواز میں قر آن پا ک پڑھو ں گا
حقیقت روشن ہو گئی
عبد اللہ بن مسعو د کی با ت سن کر صحا بہ نے کہا ہمیں قریش کی طرف سے آپ کے با رے میں خطر ہ ہے ہم تو ایسا آدمی چا ہتے ہیں جس کا خا ند ان قریش کی طر ف سے حفا ظت کر تا رہے اس کے جو اب مین حضرت عبد اللہ بن مسعو د نے فر ما یا تم میری پر واہ نہ کر و اللہ پا ک میری حفا ظت خو د فر ما ئیں گے
دوپہر کے بعد حضرت عبد اللہ بن مسعو د بیت اللہ میں پہنچ گئے آپ مقام ابراہیم میں کھڑے ہو گئے اس وقت قریش اپنے اپنے گھروں میں تھے اب انہو ں نے بلند آواز میں قرآن پا ک پڑھنا شروع کیا جب قریش نے یہ آواز سنی تو کہنے لگے اس غلا م زاد ہو کیا ہو ا ہے کو ئی اور بو لا محمد جو کلا م لے کر آئیں ہیں یہ وہ ہی پڑھ رہا ہے
یہ سنتے ہی مشرکین ان کی طر ف دوڑ پڑے اور لگے انہیں ما رنے پیٹنے عبد اللہ بن مسعو د چو ٹے کھا تے جا تے تھے اور قر آن پڑھتے جا تے تھےیہا ں تک کہ انہوں نے سو رہ کا زیا دہ تر حصہ تلا وت کر ڈالا اس کے بعد وہا ں سے اپنے ساتھیو ں کے سا تھ آگئےان کا چہرہ اس وقت تک لہو لہا ن ہو گیا تھا ان کی یہ حا لت دیکھ کر مسلما ن بو ل اٹھے
ہمیں تمھا ری طر ف سے اس با ت کا خطر ہ تھا حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فر ما یا اللہ کی قسم اللہ کے دشمنو ں کو میں نے اپنے لئے آج سے زیا دہ ہلکا اور کمزور کبھی نہیں پا یا اگر تم لو گ کہو تو کل پھر ان کے سا منے جا کر قر آن پڑھ سکتا ہو ں اس پر مسلما نوں نے کہا نہیں وہ جس چیز کو نا پسند کر تے ہیں آپ انہیں وہ کا فی سنا آئیں ہیں
کفا ر کا یہ ظلم و ستم جا ری رہا ایسے میں ایک دن حضورﷺ صفا کی پہا ڑی کے درمیا ن مو جو د تھے ابو جہل آپ ﷺ کے پا س سے گزرا اس کے آپ ﷺ کو دیکھ لیا آپ ﷺ کو برا بھلا کہنے لگا اور آپ ﷺ کے سر پر مٹی بھی پھینک دی عبد اللہ بن جد عان کی با ندھی نے یہ منظر دیکھا پھر ابو جہل چل کر حرم میں دا خل ہو ا مشرکین جمع تھے وہ ان کے سامنے اپنا کا رنا مہ بیا ن کر نے لگا
چچا کی محبت
اس وقت آپ ﷺ کے چچا حضرت حمزہ حرم سے گزرے یہ اس وقت تک مسلما ن نہیں ہو ئے تھے تلوار ان کی کمر سے لٹک رہی تھی وہ اس وقت شکا ر سے واپس آئے تھے ان کی عادت تھی جب شکا ر سے لو ٹتے تو حرم جا کر پہلے طو اف کر تے تھے پھر گھر واپس جا تے تھے حضرت حمزہ حرم میں دا خل ہو نے سے پہلے جد عان کی با ندھی کے پا س سے گزرے تھے اس نے سارا منظر خا مو شی سے سنا اور دیکھا تھا اس نے حمزہ سے کہا اے حمزہ کچھ خبر بھی ہے ابھی ابھی یہا ں ابو حکم بن ہشام نے تمھا رے بھتیجے کے ساتھ کیا سلو ک کیا ہے وہ یہا ں بیٹھے تھے ابو جہل نے انہیں دیکھ لیا نہیں تکا لیف پہنچا ئیں بر ا بھلا کہا آپ کے بھتیجے نے انہیں جو اب میں کچھ نہیں کہا سا ری با ت سن کر حضرت حمزہ نے کہا تم جو کچھ بیا ن کر رہی ہو کیا یہ سب تم نے اپنی آنکھو ں سے دیکھا ہے اس نے فورا کہا ہا ں میں نےخو د دیکھا ہے یہ سنتے ہی حمزہ جو ش میں آگئے چہرہ غصے سے تمتما اٹھا فو را حرم میں دا خل ہو ئے وہا ں ابو جہل مو جو د تھا وہ قریشیو ں کے درمیا ن بیٹھا تھا سیدھا اس کے پا س جا پہنچے ہا تھ میں کما ن تھی بس وہ ہی کھنچ کر اس کے سر میں ما ر دی ابو جہل کا سر پھٹ گیا حضرت حمزہ نے کہا تو محمد کو بر ا بھلا کہتا ہے سن لے میں بھی اس کا دین اختیا ر کر تا ہو ں اور جو کچھ وہ کہتا ہے میں بھی کہتا ہو ں اب اگر تجھ میں ہمت ہے تو مجھے جو اب دے