غا ر حرا کی کہا نی :
نبی کر یؐ ﷺ کی عمر 38 سا ل کے قر یب ہو ئی تو اس وقت آپ ﷺ گھر سے کچھ کھانے پینے کا ساما ن لے کرمکہ کے قر یب ایک پہا ڑ ی حرامیں چلےگئے۔یہ مکہ سےقر یبا 3میل دور تھی۔ کچھ دن اس پہا ڑ ی کی غا ر میں رہے ۔ جب سما ن ختم ہو ا تو واپس آ گئے ۔کچھ دن بعد پھر چلے گئے ۔ یہ سلسلہ قریبا 2 سال تک جا ری رہا ۔ مکہ والو ں کاشر ک کر نا ، بتو ں سے ما نگنا آپ ﷺ کو بہت برا لگتا تھا ، اس لیےزیا دہ تروقت آپ غارحرامیں گزارتےتھے۔
پہلی واحیکی با تیں؛
ایک دن آپ ﷺ اسی غا ر میں تھے کہ اللہ پا ک نے ایک فر شتہ بھیجا جن کا نا م حضر ت جبرزا ئیل علیہ اسلا م تھا ۔ انہو ں نے آ کر آپ ﷺ سے کہا کہ پڑ ھیں ۔ آپﷺ نے فر ما یا کہ میں پڑ ھ نہیں سکتا فر شتے نے پھر یہی سوال کیا ۔ آپ ﷺ نے فر ما یا میں پڑ ھ نہیں سکتا ۔ تیسری مر تبہ پھر یہی سو ال کیا تو آپﷺ نے پھر وحی جو ا ب دیا ۔ پھر فر شتے نے آپ ﷺ سے کہا ، اپنے رب کے نا م سے پڑ ھ جس نے پیدا کیا ۔ اس نے انسا ن ک وایک جمے خو ن سے پیدا کیا ۔ پڑھ اور تیرا رب ہی سب سے زیا دہ کر م والا ہے ۔ وہ جس نے قلم کے سا تھ سکھا یا ۔ اس نے انسا ن کو وہ سکھا یا جو وہ نہیں جا نتا تھا ۔ یہ پہلی وحی تھی جو آپ ﷺ کی رف ان کے رب نے بھیجی تھی ۔ اس سورۃ کا نا م سو ر ۃ العق تھا اور نا زل ہو نے والی آیا ت کی تعداد 5 تھی۔
اس کے بعد آپ ﷺ گھر چلے گئے ۔ جب گھر پہنچے تو کپکپا ہٹ طا ری تھی ۔ آپ ﷺ نے اپنی زوجہ محترمہ خدیجہ سے کہا کہ مجھے کمبل اوڑھا دو انہو ں نے آپ ﷺ پر کمبل دیا ۔ جب طعبیت کچھ بحا ل ہو ئی تو ساری با ت سنا ئی ۔ با ت سننے کے بعد خد یجہ کہنے لگی ۔اللہ پا ک آپ کو ضا ئع نہیں کر ے گا ۔ آپ صلہ رحمی کر تے ہیں ۔ بو جھ اٹھا تے ہیں ۔ مہما ن نو ازی کرتے ہیں ۔ غر یب کی مدد کر تے ہیں اور حقدار کی طرف داری کر تے ہیں ۔
یعنی نبو ت کی وحی آنے سے پہلے بھی آپ ﷺ یہ سب اچھے اچھے کا م کر تے تھے ۔ اللہ پا ک ہمیں بھی ایسےنیک کا م کرنے کی تو فیق عطا فر ما ئے ۔
اس کے بعد وہ آپ ﷺ کو لے کر اپنے چچا زاد بھا ئی ورقتہ بن نو فل کے پا س گئیں ۔ انہو ں نے بھی آپ ﷺ کو تسلی دی اور ساتھ ہی سا تھ یہ بھی بتا یا کہ لگتا ہے کہ آپ ہی اللہ پا ک کے آخر ی نبی ہیں اور پہلی کتا بو ں میں لکھا ہے کہ آخری نبی کو اس کے ولا قے میں سے نکا ل دیا جا ئے گا ۔ یعنی آپ ﷺ کو نبو ت ملنے کے بعد ایک مشقت والی زند گی گزارنی پڑے گی ۔ وہ لو گ جو آپ کا احترا م کر تے تھے وہی آپ کے مخا لف ہو جا ئیں گے حتی کہ آپ ﷺ کو مکہ سے بھی نکا ل دیں گے ۔
مکہ والو ں کا پیا ر دشمنی میں کیسے بدلا ؟
نبو ت سے پہلے آ پﷺ کی بہت عزت کیا کرتے تھے حتی کہ جب آپ ﷺ نے پہا ڑی پر چڑ ھ کر لو گو ں تک تو حید کا پہلا اعلا نیہ پیغا م پہنچا نے کے لیے انہیں ان کے قبیلوں اور نا مو ں سے پکا را تو سب ہی آ گئے اور اگر کو ئی نہ آ سکا تو اس نے اپنا نما ئندہ بھیج دیا تا کہ معلا م کر سکے کہ آپﷺ کیا کہنا چا ہتے ہیں
جیسے ہی آپ ﷺ نے انہیں بتو ں کی عبا دت سے رسکا اور اپنی نبو ت کا اعلا ن کیا تو اسی وقت وہ لو گ آپ کے دشمن بن گئے ۔ عزت کر نے کی بجا ئے آوازیں کسنے لگے ۔ قرآن وس حدیث اور سیرت کی کتب کے مطا لعہ سے معلو م ہو تا ہے کہ انہو ں نے چا ر بنیا دی وجو ہا ت کی بنا پر انکا ر کیا ۔
انسا ن ہو نا :
حضو ر ﷺ عام انسا نو ں کی طرح ہی ایک وام انسا ن ہیں جو ان کے ساتھ ہی تجا رت کر تے تھے ، کھا تے پیتے ، سفر کر تے ، با تیں کر تے تھے ۔ ان کی شا دی بھی ہو ئی اور اولا د بھی تھی ۔ ا کے خیا ل میں نبی اسے ہو چا ہیے جو عام انسا نی ض خصا ئص والا نہ ہو ۔ یا تو کو ئی فر شتہ ان کی طرف نبی بنا کر بھیجا جا تا پھر وہ اس کی با ت ما نتے ، یا پھر نبی کر یم ﷺ کے کہنے پر کو ئی بستی پو ری سو نے کی بن جا تی ، ان کے کہنے پر مردے با ت کر تے ۔ یعنی کو ئی عجیب و غر یب معجزات رونما ہو تے با لخصو ص جو ان مشرکین مکہ کے دنیا وی فا ئدہ کا ساما ن بنتے ۔
مکہ والو ں کا یہ اعترا ض درست نہیں کیو نکہ اگر زمین میں فر شتے رہتے تو اللہ پا ک فر شتو ں میں سے ہی کو ئی نبی بنا تا ۔ نبی تو اس لیے بھیجے جا تے ہیں کہ وہ لو گو ں کو اللہ کے احکا ما ت کے مطا بق عمل کر کے دکھا ئیں پھر لو گ بھی ویسے ہی اعمل کر یں ۔ اگر فر شتہ نبی بنا کر بھیجا جا تا تو پھر انسا نو ں نے یہ اعتراض کرنا تھا کہ یہ فر ستے ہیں ۔ نہ کھا تے ہیں نہ پیتے ہیں ۔ نہ تجا رت کر تے ہیں نہ کما تے ہیں نہ ان کی رشتہ داریا ں ہیں ۔ ہم ان جیسی عبا دت صبر قنا عت شکر گزار بہا دری کر ہی نہیں سکتے لہذا اللہ پا ک نے انسا نو ں کی ہدا یت کے لئے انسا ن ہی نبی بنا کر بھیجے ۔
محمد صا رم (مسلم ریسرچ سنٹر سے اقتبا س )