تعریف
سو رہ فا تحہ کے بغیر نما ز نہیں مکمل ہو تی سو رہ فا تحہ میں ہد ایت کا ذکر کیا گیا ہے سو رہ فا تحہ ایک دعا ہے دعا کر نے کا طر یقہ بھی سو رہ فا تحہ سے معلو م ہو تا ہے کہ پہلے اللہ کی تعر یف بیا ن کر یں پھر دعا کر یں اور دعا میں سب سے بہتر ین دعا ہد ایت کی دعا ہے کیو نکہ انسا ن سب سے زیا دہ ہد ایت کا محتا ج ہے اللہ نے انسا ن یعنی خلق کو ہد ایت سے جو ڑا ہے
نزول
اس سو رہ کو سو رہ شفا ،سورہ رقیہ ، ام الکتا ب،ام القر ان بھی کہا جا تا ہے یہ سو رہ قر آن پا ک کی پہلی سو رہ ہے اس میں 7 آیا ت ،27 کلما ت ، اور 140 حر وف ہیں یہ قر آن حکیم کی عظیم سو رہ ہے یہ مکی سو رہ ہے اور مکی دور میں نا زل ہو ئی
پو شیدہ مو تی
مشکل میں الحمد اللہ کہو تو یہ سوچ کر کہو کہ مجھے اس مشکل میں اللہ نے ڈ الا ہے تو یہ مشکل بھی تعر یف کے لا ئق ہے اگر اس مصبیت سے گزر رہا ہو ں تو یہ اللہ کی نعمت ہےمیں اس کا شکر کر وں گا اور اس کا شکر گزار بند ہ بنو ں گا یہ ایما ن ہو نا چا ہئے اپنے رب تعا لی پر عا دت بنا لیں ہر مصیبت پر الحمد اللہ کہنے کی
شکر کی اہمیت
رسول اللہ کے پا س ایک شخص آیا اس نے آکر کہا کہ اے اللہ کے رسول میرے پا س اتنا رزق ہے اللہ مجھے اور نہیں چا ہئے لیکن اللہ نو ازتا جا رہا ہے رسول کر یم نے فر ما یا کہ تم اللہ کا شکر ادا کر نا بند کر دو اور ایم دوسرا شخص آیا اُس نے کہا اے اللہ کے پیا رے حبیب میرے پا س کچھ نہیں ہے فا قوں کی نو بت آجا تی ہے اس کو ہما رے رسول کر یم نے کہا کہ تم اللہ کا شکر ادا کر نا شروع کر دو اللہ تمھیں بے تحا شہ نو ازیں گے اس سے ہمیں شکر کی اہمیت کا اندازہ ہو تا ہے
شکر اور تعر یف اللہ کے لئے ہے
اس آیت میں دو لفظ ہیں شکر اور تعریف تو ان کے دو الگ الگ مطلب ہیں دنو ں کا ایک ہی مطلب نہ لیں دنو ں الگ الگ ہیں سا تھ نہیں ہیں دنو ں کا مطلب ایک ایک کر کے جا نیں گے
اللہ الحمد
حمد صر ف اللہ کی اللہ کے ساتھ کسی کو شر ک نہیں بنناتما م تعر یف کی ما لک صر ف اللہ کی ذا ت ہے
الحمد اللہ
حمد اللہ کے لئے
ہما رے ہا تھ میں صرف اور صر ف کو شش ہے اور نتیجہ اللہ کے ہا تھ میں ہے ہما ری زندگیو ں میں جو کچھ اچھا آہا ہے اور جو کچھ اچھا ہو رہا ہے صرف اور صرف اللہ کی طر ف سے ہے انسا ن کی ملکیت میں کو ئی چیز نہیں ہے سو ائے اس کے جس کے اس نے کو شش کی کسی کے کا ن میں اللہ نے کن فیکو ن ڈا ل دیا کسی کے کا ن میں نہیں ڈا لا یہ بھی الحمد اللہ کا نتیجہ ہے
فا تحہ کا بنیا دی مطلب
اللہ کا اور انسان کا تعلق ہے
سا ری دنیا ختم ہو جا ئے گی صر ف اور صر ف رب کا نا م با قی رہے گا با قی تما م فنا ہے
ہم الحمد اللہ کیو ں کہتے ہیں الحمدخا لق ،ما لک ،غفا ر یہ سب کیو ں نہیں کہتے یہ سب بھی تو اللہ کے نا م ہیں ؟
ہم جب بھی کہیں گے الحمد اللہ اس میں سب تعر یف آجا تی ہے لیکن اگر ہم کہیں الحمد الخا لق اس میں اچھی صو رت بنا نے پر شکر کر یں گے الحمد الرازق اس میں رزق دینے پر شکر کر یں گے لیکن جب الحمد اللہ کہتے ہیں تو ہر چیز کو ر ہو جا تی ہے
اللہ کی حمد اور تسبیح کی ہم انسا نو ں کو ضرورت ہے اللہ کی حمد و ثنا بیا ن کر نے کے لئے تو فر شتے مو جو د ہیں
الحمد اللہ رب العا لمین
حمد کے بعد رب کا لفظ استعما ل کیا گیا ہے
رب کے معنی :
ما لک
سید ( سردار ) جس کی کو ئی اتھا روٹی ہو
منعم ( انعا م دینے والا )
المر بی ( با غ با ن پو دے لگا نے والا)
القیم ( قا ئم رکھنے والا )
الرحمن الرحیم کے بنیا دی معنی :
رحیم کے معنی ہیں خا ص طو ر پر رحم کر نے والا رحم کے دو معنی ہیں ایک شد ید محبت اور دوسرا مکمل طو ر پر کسی کا خیا ل رکھنا
الرحمن کے معنی ہیں سب پر عا م رحم فر ما نے والا
رحمن کی خصو صیت :
شدت ہو تی ہے ( اللہ شدد محبت کر تا ہے )
عا رضی محبت ہو تی ہے ( ہما ری غلطی سے اللہ کی محبت جا تی ہے )
فو ری محبت ہو تی ہے ( اللہ ہا ک اپنے بندو ں سے ہر وقت محبت کر تا ہے )
عا رضی محبت کا مطلب یہ ہے کہ جیسے پا نی پیا کو ہٹا دیتا ہے ویسے ہی ہما را کو ئی غلط کا م اللہ کی رحمت کو ہٹا دیتا ہے وہ رحمن تو رہتا ہے مگر گنا ہ کر نے والے انسا ن کے لئے نہیں وہ اس وقت رحمن
رحیم
ہمیشہ رہنے والی صفت
قابلیت اہمیت
اس کو ایک مثا ل سے سمجھتے ہیں کہ ابھی کی پر ابلم حل کر نے کے لئے الرحمن اور ہمیشہ کا مسلہ حل کر نے کے لئے رحم دے دیا
ابن عبا س کہتے ہیں کہ الرحمن دنیا میں سب کے لئے اور رحیم آخرت کے لئے الرحمن دنیا میں سب کے لئے الرحیم آخرت میں ایما ن والو ں کے لئے