آپ ﷺ کے اس خطبے کو سن کر ابو لہب نے سخت تر یں اندا ز میں کہا :
اے بنی عبد المطلب ! اللہ کی قسم ! یہ ایک فتنہ ہے اس سے پہلے کہ کو ئی دوسرا اس پر ہا تھ ڈا لے ، بہتر یہ ہے کہ تم ہی اس پر قا بو پا لو ، یہ معا ملہ ایسا ہے کہ اگر تم اس کی با ت سن کر مسلما ن ہو جا تے ہو ، تو یہ تمہا رے لیے ذلے اور رسوا ئی کی با ت ہو گی ۔ اگر تم اسے دوسرے دشمنو ں سے بچا نے کی کر و گے تو تم خو د وقتل ہو جا ؤ گے ۔”
اس کے جو اب میں اس کی بہن یعنی نبی اکر م ﷺ کی پھو پھہ صفیہ ؑ نے کہا :
خطبہ نبی کر یم ﷺ
بھا ئی ! کیا اپنے بھتیجے کو اس طرح رسوا کرنا تمہا رے لیے منا سب ہے اور پھر اللہ کی قسم بڑ ے بڑ ے عا لم یہ خبر دیتے آرہے ہیں کہ عبد المطلب کے خا ندا ن میں سے ایک نبی ظا ہر ہو نے والے ہیں لہذا میں تو کہتی ہو ں یہی وہ نبی ہیں ۔”
ابو لہب کو یہ سن کر غصہ آیا وہ بو لا :
” اللہ کی قسم یہ بلکل بکواس ہے اور گھر وں میں بیٹھنے والی عو رتو ں کی با تیں ہیں ۔ جب قر یش کے خا ندا ن ہم پر چڑ ھا ئی کر نے آئیں گے اور سا رے عر ب ان کا سا تھ دیں گے تو ان کے مقا بلے میں ہما ری کیا چلے گی ۔ خدا کی قسم ان کے لیے ہم ایک تر نوا لے کی حیثیت ہو ں گے۔”
اس پر ابو طا لب بو ل اٹھے :
اللہ کی قسم ! جب تک ہما ری جا ن میں جا ن ہے ہم ان کی حفا ظت کر یں گے ۔”
اب نبی کر یم ﷺ صفا پہا ڑ ی پر چڑ ھ گئے اور تما م قر یش کا سلا م کی دعوت دی ۔ ان سب سے فر ما یا :
“اے قر یش ! اگر میں تم سے یہ کہو ں کہ اس پہا ڑ کے پیچھے سے ایک لشکر آرہا ہے اور وہ تم پر حملہ کر نا چا ہتا ہے تو کیا تم مجھ سے جھو ٹا خیا ل کرو گے ۔”
سب نے ایک زبا ن ہو کر کہا :
نہیں ! اس لیے کہ ہم نے آپ کو آج تک جھو ٹ بو لتے ہو ئے نہیں سنا ۔”
اب آپ نے فر ما یا :
اے گرو ہ قر یش ! اپنی جا نو ں کو جہنم سے بچا ؤ اس لئے کہ میں اللہ تعا لیٰ کے ہا ں تمہا رے لیے کچھ نہیں کر سکو ں گا ، میں تمہیں اس زبر دست عذاب سے صا ف ڈرا رہا ہو ں جو تمہا رے سا منے ہے ،میں تم لو گو ں کو دو کلمے کہنے کی دعو ت دیتا ہو ں ، جو زبا ن سے کہنے میں بہت ہلکے ہیں ، لیکن ترا زو میں بے حد وزن والے ہیں ، ایک اس با ت کی گو اہی کہ اللہ کے سوا کو ئی عبا دت کے لا ئق نہیں ، دوسری یہ کہ میں اللہ کا رسو ل ہو ں ، اب تم میں سے کو ن ہے جو میر ی اس با ت کو قبو ل کر تا ہے ۔”
آپ کے خا مو ش ہو نے پر ان میں سے کو ئی نہ بو لا تو آپ نے اپنی با ت پھر دہرا ئی ، پھر آپ نے تیسری با ر اپنی با ت دہرا ئی مگر اس با ر بھی سب خا مو ش کھڑ ے رہے ۔ اتنا ہو ا کہ سب نے آپ کی با ت خا مو شی سے سن لی اور واپس چلے گئے ۔
ایک دن قر یش کے لو گ مسجد حرا م میں جمع تھے ، بتو ں کو سجدے کر رہے تھے ، آپ نے یہ منظر دیکھا تو فر ما یا :
اے گر وہ قر یش ! اللہ کی قسم !تم اپنے با پ ابر ہیم ؑ کے را ستے سے ہٹ گئے ہو ۔”
آپ کی با ت کے جو ب میں قر یش بو لے :
” ہم اللہ تعا لیٰ کی محبت ہی میں بتو ں کو پو جتے ہیں تا کہ اس طرح ہم اللہ تعا لیٰ کے قر یب ہو سکیں ۔”
افسو س ! آج کل ان گنت لو گ بھی قبر وں کو سجد ہ با لکل اسی خیا ل سے کر تے ہیں اور خو د کو مسلما ن کہتےہیں ۔
اس مو قع پر اللہ تعا لیٰ نے ان کی با ت کے جو اب میں وحی نا زل فر ما ئی :
آپ فر ما دیجیے !اگر تم اللہ تعا لیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میر ی پیر وی کر و ، اللہ تعا لیٰ تم سے محبت کر نے لگیں گے اور تمہا رے سب گنا ہو ں کو معا ف کر دیں گے ۔
قر یش کو یہ با ت بہت نا گوا ر گز ری ۔ انہو ں نے ابو طا لب سے شکا یت کی :
” ابو طا لب ! تمہا رے بھتیجے نے ہمارے معبو دو ں کو برا کہا ہے ، ہما رے دین میں عیب نکا لے ہیں ، ہمیں بے عقل ٹھہرا یا ہے ، اس نے ہما رے با پ دادا تک کو گمرا ہ کہا ہے ، اس لیے ہما ری طرف سے آپ نپٹیے یا ہما رے اور اس کے درمیان سے ہٹ جا ئیں ، کیو نکہ خو د آپ بھی اس دین پر چلتے ہیں جو ہما را ہے اور اس کے دین کے آپ بھی خلا ف ہیں ۔”
ابو طا لب نے انہیں نر م الفا ظ میں یہ جو اب دے کر واپش بھیج دیا کہ اچھا میں انہیں سمجھا ؤ ں گا ۔
ادھر اللہ تعا لیٰ نے حضر ت جبرا ئیل کو آپ کی خدمت میں بھیجا ۔ حضرت جبر ئیل نہا یت حسین شکل صور ت میں بہتریں خو شبو لگا ئے ظا ہر ہو ئے اور بو لے :
اے محمد ! اللہ تعا لیٰ آپ کو سلا م فر ما تے ہیں اور فر ما تے ہیں کہ آپ تما م جنو ں اور انسا نو ں کی طرف سے اللہ تعا لیٰ کے رسو ل ہیں ، اس لیے انہیں کلمہ لا الہ الا اللہ کی طرف بلا ئیے ۔”