اسبا ب ہجر ت :
قر یش اب بہت زیدا ہ ہی تنگ پر چکے تھے ۔ با ت با ت پر لڑ تے تھے ۔
مسلما ن اس رویے سے بہت پر یشا ن تھے ۔ نبی کر یم ﷺ نے انہیں مد ینہ کی طرف ہجر ت کی اجا زت دے دی بہت سے مسلما ن ہجرت کر کے مد ینہ جا چکے تھے ۔
کفا ر اس با ت پر بھی غصے میں تھے کہ ان کے ہا تھ سے مسلما ن بچ بچ کر مد ینہ جا رہے ہیں ۔ آ خر کا ر انہو ں نے حضر ت محمد ﷺ کو راستے سے ہٹا نے کا فیصلہ کر لیا ۔دوسرے لفظو ں میں یو ں کہیے کہ شہید کر نے کا منصو بہ بنا یا ۔اس کا م کے لئے انہو ں نے چند نو جو انو ں کو تیا ر کیا اور ایک رات آپ ﷺ کے گھر کا محا صر ہ کر لیا ۔
دو سری طرف ایسا آپ ﷺ کو آپ کے رب نے وحی کے ذریعے ان کے گندے منصو بے کی خبر دے دی ۔
جس رات کفا ر نے آپ ﷺ کو شہید کر نے کے لئے گھر کے گر د گھیرا ڈالا ہو ا تھا ، اسی رات آپ ﷺ نے ہجر ت کے لئے نکلنے سے پہلے حضر ت علی ؑ کو حکم دیا کہ کفا ر کی اما نتیں ان کے ما لکو ں کو لو ٹا دینا ۔
اسلا م میں اما نت کی اہمیت :
کو ئی بندہ جب کو ئی چیز کسی دوسرے کے پا س رکھواتا ہے اور طلب کر نے پر وہ اسی طر ح واپس کر دی جا تی ہے تو اسے اما نت کہتے ہیں
اسلا م میں اما نت کی بہت ہی بیا ن کی گئی ہے آپ نے فر ما یا کہ :
اس شخص کا کو ئی ایما ن نہیں جس میں اما نت داری نہیں (مسنداحمد 12383)
منا فق جو جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہو نگے ان کی عا دتیں بیا ن کر تے ہو ئے نبی کر یم نے فر ما یا کہ منا فق کی تین نشا نیا ں ہیں جب با ت کر تا ہے تو جھو ٹ بو لتا ہے
جب وعدہ کر تا ہے تو خیا نت کر تا ہے اور جب اما نت رکھو ائی جا تی ہے تو خیا نت کر تا ہے
ہما رے یہاں کسی سے کو ئی لڑائی جھگڑا ہو جا ئے اور اس کی کو ئی چیز ہما رے پا س ہو تو سب سے پہلے ہم یہ ہی کہتے ہیں :ہمت ہے تو اب اپنی چیز لے کر دکھا ؤ
قر با ن جا ئیں نبی پا ک پر جنہیں قتل کر نے کے لئے با ہر کھڑے ہیں اور آپ ان کی اما نتیں واپس کر نے کا حکم دے رہے ہیں
اللہ پا ک ہمیں بھی اپنے نبی پا ک جیسی ہی اچھی عا دتیں اپنا نے کی تو فیق عطا فر ما ئے آمین
جب با ہے نکلنے لگے تو اللہ پا ک کے حکم سے ایک مٹھی ریت و چھو ٹی کنکر یو ں کے کر ان شہید کرنے کے لئے آنے والے افراد کے سروں میں پھینکی اور یہ آیت تر جمہ : اور ہم نے ان کے آگے سے ایک دیو ار کر دی اور ان کے پیچھے سے ایک دیو ار پھر ہم نے انہیں ڈھا نپ دیا تو وہ نہیں دیکھتے
پڑ ھتے ہو ئے ان کے سا منے سے نکل گئے اور اللہ پا ک کے حکم سے آپ ﷺ انہیں نظر ہی نہیں آئے ۔
را ستے میں حضر ت ابو بکر ؑ کو ساتھ لیا اور مد ینہ کی طرف چل پڑے ۔ کفا ر کو جب پتا چلا کہ نبی ﷺ نکل گئے ہیں تو دانت پیسنے لگے ۔ پر طرف بند ے دوڑ آئے ۔ انہیں اندا زہ تھا کہ آپ ﷺ مد ینہ کی طرف ہی ہجر ت کر یں گے ۔ لہذا مد ینہ جا نے وا لے تما م را ستو ں پر تین دن تک آپ ﷺ کو ڈھو نڈ تے رہے ۔
آپ ﷺ انہیں ملتے کیسے ؟ آپ تو مد ینہ جا نے والے راستے پر جا نے کی بجا ئے پہلے با لکل الٹی طرف ایک پہا ڑ ی کی غا ر جسے غا رصو ر کہا جا تھا ہے میں 3 دن تک رہے جب وہ ڈ ھو نڈ ڈ ھو نڈ کر تھک گئے تو ان میں سے چند افرا داس پہا ڑ ی پر چڑ ھے کہ شا ید آپ ﷺ نظر آ جا ئیں ۔ جب وہ غا ر کے قر یب پہنچے تو ابو بکر صد یق ؑ پر یشا ن ہو ئے کہ کہیں ان کی نظر آپ ﷺ پر نہ پڑ جا ئے تو آپ ﷺ نے فر ما یا :
” گھبرا نا نہیں بلا شبہ اللہ ہما رے ساتھ ہے ۔”
جب وہ نا کا م ہو گئے تو واپس گھر وں کو چل گئے ۔ لو گو ں کو لا لچ دینے لگے کہ اگر کو ئی حضر ت محمد ﷺ کے متعلق بتا ئے گا اسے زیا دہ انعام دیا جا ئے گا ۔ کئی لو گو ں نے اسی لا لچ میں کئی دن تک آپ ﷺ کی تلا ش جا ری رکھی ۔
مگر جس کی حفا ظت اللہ پا ک کر ے اسے کو ئی بھی تکلف نہیں آ سکتی ۔
غا ر ثو ر سے مد ینہ تک سفر کی کہا نی
دلچسپ و عجیب واقعا ت :
نبوت کے چو د ھو یں سا ل کا آغا ز ہو چکا تھا ۔ سفر کے آخری ایا م یعنی 27 تا ریخ کی با ت ہے جب آپ ﷺ اپنے پیا رے دو ست حضر ت ابو بکر ؑ کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجر ت کے لئے مکہ سے مد ینہ کے مخا لف سمت چلے اور ایک غا ر جسے غا ر ثو ر کہتے ہیں ،اس میں جمعہ ہفتہ اور اتوار کا دن رہے ۔ جب مکہ والے آپ ﷺ کا کو ئی سراغ نہ لگا سکے تو سو موا ر کو آپ ﷺ مد ینہ کی طرف عا زم سفر ہو ئے ۔
آپ ﷺ کی حفا ظت کا منفرد اندا ز :
سارے صحا بہ کر امؑ ہی آپ ﷺ سے بڑ ی محبت کر تے تھے ۔ اپنے آپ سے بھی زیا دہ آپ ﷺ کی حفا ظت کر تے ۔
جن دنو ں آپ ﷺ ابو بکر ؑ کے ساتھ غا ر میں تھے ان دنو ں ابو بکر ؑ کے بیٹے عبد اللہ ؑ مکہ والو ں کے ساتھ رہتے ۔ دشمن سا را دن جو سا ز شیں کر تے تھے وہ رات کو جا کر اس کی اطلا ع آپ ﷺ کو دیتے تا کہ آپ ﷺ سا رے حا لت سے با خبر رہیں ۔
اسی طرح ابو بکر ؑ کے غلا م عا مر بن فہیر ہ سا را دن بکر یا ں چرا تے اور رات کو ان کا دودھ آپ ﷺ کو پیش کر تے ۔