یہو دیو ں کی غداری :
دوسری طرف یہو دیو ں نے مدینہ میں مو جو د اپنے رشتے داروں یعنی بنو قریظہ کو کہنا شروع کر دیا کہ تم پیچھے سے حملہ کروہم سا منے سے کر تے ہیں پہلے تو وہ نہ ما نے مگر آخر کا ر ما ن گئے پھر انہو ں نے چپکے چپکے تلواریں بیزے وغیرہ اکٹھے کر نا شروع کر دیئے آپﷺ مد ینہ سے کچھ با ہر خندق کے پا س تھے یہ با تیں آپﷺ تک بھی پہنچ گئی اب منا فق کہیں کہ اب ہم مد ینہ واپس جا رہے ہیں کیو نکہ اگر پیچھے سے یہو دیو ں نے حملہ کر دیا تو گھر والوں کو بچا تو سکیں گے منا فق ہمیشہ ہی ایسے کر تے ہیں ذرا لڑائی ہو ئی یا ں ہو نے کا چا نس بنا تو فوراہی بھا گ گئے
ایک بہا در عورت کی کہا نی :
یہو دی لڑکو ں نے مد ینہ میں مسلما نو ں کے گھر کے ادر گرد چکر لگا نے شروع کر دیئے ایک بہا در مسلما ن عورت نے جب یہ سب کچھ دیکھا تو ایسے ہی ایک یہو دی کو جو بری نظر سے مسلمانو ں کو دیکھ رہا تھا اسے ما را یہو دی ڈر گئے کہ شا ید مسلما نو ں کے گھر میں بھی فو ج مو جو د ہے ان سب پر یشا نیو ں میں ایک میٹنگ ہو ئی جس میں آپ ﷺ نے لو گو ں کی وجہ سے مسلما نو ں پر حملہ کر نے والے ایک یہو دی قبیلے غطفان کو مد ینے کی فصل میں سے ایک خا ص حصے کی آفر کر نے کا پو چھا لیکن سب نے انکا ر کر دیا اس سے پتا چلتا ہے آپ ﷺ اہم با ت پر سب سے مشورہ کر تے تھے اور اگر کو ئی مشورہ ما نگے تو صحیح با ت بتا نی چاہیئے کیو نکہ مشورہ اما نت ہو تا ہے
دلچسپ کہا نی کا آغاز:
سب لو گ بڑے پر یشا ن تھے کہ ایک رات آپﷺ کے پا س خندق کے با ہر سے نعیم بن مسعو د نا می یہو دی آیا عرض کر نے لگا کہ کسی کو بھی نہیں پتہ کہ میں مسلما ن ہو گیا ہو ں آپﷺ بتا ئیں کہ میں کیا کروں آپﷺ نے بتا یا کہ جنگ دھو کہ ہے تم قریظہ اور مشرکین کے درمیا ن پھو ٹ ڈال دونعیم یہ با ت سن کر سید ھا بنو قریظہ کے پا س چلا گیا انہیں جا کر کہا کہ میں تمھیں ایک با ت بتا تا ہو ں کا فر وں سے خندق پا س واس کو ئی نہیں ہو نی انہو ں نے بھا گ جا نا ہے انہو ں نے پو چھا کہ پھر کیا کر یں کہنے لگے کہ اگر وہ اپنے سردار یعنی تا یے با بے تمھیں دے دیں تو پھر ٹھیک ہے کیو نکہ جب ان کے بڑے بزرگ پا س ہو ں گے تو وہ انہیں چھو ڑکر نہیں بھا گیں گے اگر انہو ں نے انکا ر کر دیا تو سمجھ لینا کہ ان سے خندق پا س نہیں ہو نی اور انہو ں نے یہا ں سے سب کچھ چھو ڑ کر بھا گ جا نا ہے اور پھر مسلما نو ں نے تمھیں نہیں چھو ڑنا یہ کہہ کر وہ کا فر وں کے پا س گیا اور کہا کہ قر یظہ والے یہو دی جو تمھا رے سا تھ ہو گئے تھے وہ واپس نبی پا ک کے ساتھ مل گئے ہیں تمھا رے پا س آکر تمھا رے سردار ما نگے گیں اگر تم نے انہیں اپنے سردور دے دیئےتو انہو ں نے لے جا کر نبی پا ک ﷺ کے حو الے کر دینا ہے لہذا ہو شیا ر رہنا اور اپنے سردار انہیں نہ دینا کچھ ہی دیر گزری تو قریظہ والے کا فروں کے پا س آگئے کہ اپنے بڑے سردار ہما رے پا س بھیجو تا کہ ہمیں یقین ہو جا ئے کہ تم خندق پا ر کئے بغیر نہیں جا و گے اس با ت سے کا فروں کو یقین ہو گیا کہ نعیم سچ کہتا ہے انہو ں نے انکار کر دیا وہ بندے واپس گئے اور اپنے سردار کعب بن اسد کو ساری با ت بتا دی اس نے کہا کہ نعیم سچ کہتا ہے کہ ان سے خندق پا ر نہیں ہو نی اس لئے انہو ں نے سردار نہیں بھیجے اس رات اللہ پا ک کی طرف سے آندھی اور طو فا ن آیا مشرکین کے خیمے آکھڑ گئے اور وہ دل برداشتہ ہو کر واپس چلے گئے
اس طر ح مسلما ن ایک بڑی جنگ سے بچ گئے اس وقت آپﷺ نے فر ما یا تھا کہ اب ہم حملہ کر یں گے وہ ہم پر حملہ نہیں کر سکیں گے اس غزوہ سے بنیا دی طو رپر یہ سبق ملتا ہے اگر ہم مشکل سے مشکل حالا ت میں بھی اللہ پا ک سے ڈرتے ہو ئے اس سے مدد ما نگیں تو اللہ پا ک ضرور مدد فر ما تے ہیں
یہو دیوں کی وعدہ خلا فی پر خوفنا ک سزا کا واقعہ:
کافروں سے خندق ہی نہ پا ر ہو ئی اور یہو دیو ں سے الگ اختلا گ ہو گیا آندھی اور طوفا ن نے ساری کسر نکا ل دی تو یہو دی بھا گ گئے اس وجہ سے نبی پا ک ﷺ بھی اپنے صحابہ کے ساتھ واپس آگئے اس وقت جبرائیل نے کہا کہ یہ قر یظہ کی طر ف چلیں کیو نکہ ابھی ان یہو دیوں سے بھی بد لہ لینا تھا جنہو ں نے نبی پا ک ﷺ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان سے نہیں لڑیں گے لیکن غروہ خندق میں لڑنے کے لئے تیا ر ہو گئے
آپ ﷺ نے انہیں گھیر لیا 25 دن بعد وہ کہنے لگے کہ ہم ایک شر ط پر ہتھا ر پھینکیں گے کہ ہما رے با رے میں جو بھی فیصلہ کر نا ہو گا وہ سعد کر یں گے نبی پا ک ﷺ نے یہ شرط ما ن لی جب سعد کو فیصلے کے لئے لا یا گیا تو انہوں نے سب سے پہلے پو چھا کہ وہ جو بھی فیصلہ کر یں گے سب اسے ما نیں گے ؟ سب نے کہا کہ ما نیں گے پھر سعد نے فیصلہ کیا کہ ان کے بندے پکڑ لئے جا ئیں یہ صرف قیدی نہیں بلکہ جنگی قیدی ہیں یعنی ایسے ظالم افراد جو دشمن کو جنگ میں قتل کرنے کی کو شش کرئے اسے جنگی قیدی کہتے ہیں اس لئے اس کی سزا یہ ہی تھی کہ سب کو ٹھکا نے لگا دیا جا ئے تا کہ بعد میں یہ لو گ دوبا رہ لڑنے کے لئے نہ جا ئیں