You are currently viewing سیرت النبی .حضرت ابو بکر کا ایمان لانے کا واقعہ

سیرت النبی .حضرت ابو بکر کا ایمان لانے کا واقعہ

سا ری با ت سن کر آپ ﷺ نے ارشا د فر ما یا ؛

تم زید سے پو چھ لو اگر یہ تمہا رے سا تھ جا نا چا ہے تو مجھے کو ئی اعتراض نہیں اور یہا ں رہنا چا ہیں تو ان کی مر ضی ۔ زید سے پو چھا گیا تو انہو ں نے نبی کر یم ﷺ کے ساتھ رہنا پسند کیا ۔اس پر با پ نے کہا :

تیرا برا ہو زید تو آزادی کے مقا بلے   میں غلا می کو پسند کر رہا ہے

جو ا ب میں حضر ت زید نے کہا :

ہا ں ان کے مقا بلے میں میں کسی اور کو نہیں چن سکتا :

آپ نے حضر ت زید ؑ کی یہ با ت سنی تو فو را حجر اسود کے پا س گئے اور علا ن فر ما یا :

آج سے زید میرا بیٹا ہے ۔

ان کے والد اور چچا ما یو س ہو گئے ۔ تا ہم نبی کر یم ﷺ نے انہیں اجا زت دے دی کہ وہ جب چا ہیں زید سے ملنے   آسکتے ہیں ۔ چنا نچہ وہ ملنے  کے لئے آتے رہے ۔

تو یہ تھے حضر ت زید حا رثہ ؑ جو غلا مو ں میں سب سے پہلے اسلا م لا ئے ۔ حضر ت زید وا ہد صحا بی ہیں جن کا قر آن کر یم میں نا م لے کر ذکر کیا گیا ہے ۔

سیدنا ابو بکر صدیق ؑ ایما ن لا ئے

مر دو ں میں سب سے پہلے سیدنا ابو بکر صدیق ؑ ایما ن لا ئے ۔ آپ نبی کر یم ﷺ کے پہلے ہی دوست تھے حضو ر کر یم ﷺ اکثر ہی ان کے گھر آتے اور ان سے با تیں کیا کر تے تھے ۔

ایک دن حضر ت حکیم بن حزام ؑ کے پا س بیٹھے تھے کہ ان کی ایک با ند ی وہاں آئی اور کہنے لگی :

آج آپ کی پھو پھی حضر ت ضد یجہ ؑ نے یہ دعوی ٰ کیا ہے کہ ان کے شو ہر اللہ تعا لیٰ کی طرف سے بھیجے ہو ئے پیغمبر ہیں جیسا کہ موسی ٰ تھے ۔ حضر ت ابو بکر ؑ نے جو نہیں حضر ت حکیم کی با ندی کی یہ با ت سنی  چپکے سے وہا ں سے اٹھے اور نبی کر یم ﷺ کے پا س آگئے اور آپ سے اس با رے میں پو چھا  ۔ اس پر آپ نے   حضر ت ابو بکر ؑ  کو وحی آنے کا پو را واقعہ سنا یا اور بتا یا کہ آپ کو تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے ۔ یہ سنتے ہی حضر ت ابو بکر ؑ نے عر ض کیا :

میر ے ما ں با پ آپ پر قر با ن آپ بلکل سچ کہتے  ہیں واقعی اللہ کے رسو ل ہیں ۔ آپ کے اس طرح فورا  تصدیق کر نے کی بنا  پر نبی کر یم ﷺ نے  آپ کو صد یق کا لقب عطا فر ما یا ۔اس با رے میں دو سری روا یا ت   یہ ہے کہ صد یق کا لقب آپ نے انہیں اس وقت دیا تھا جب آپ معرا ج  کے سفر سے وا پس تشر یف لا ئے تھے مکہ کے مشر کین نے آپ کو جھٹلا یا تھا ۔ اس وقت حضر ت ابو بکر صدیق نے اس واقعہ کو سنتے ہی فو ری طو ر پر آپ کی تصدیق کی تھی اور آپ نے انہیں صدیق کا لقب عطا فر ما یا تھا ۔

غر ض ابو بکر صدیق ؑ نے آپ کی نبو ت کی تصدیق فو ری طو ر پر کر دی ۔

حضر ت ابو بکر کا نا م نبی کر یم ﷺ نے عبد اللہ رکھا ، اس لیے کہ اس سے پہلے ان کا نا م عبدالکعبہ تھا ۔ اس لحا ظ سے ابو بکر صدیق وہ پہلے آدمی ہے جن کا نا م نبی کر یم ﷺ نے تبد یل کیا ، حضر ت ابو بکر ؑ یو ں بھی بہت خو بصور ت تھے اس  منا سبت سے آپ ﷺ نے ان لقب عتیق کر رکھا تھا ۔ عتیق کا مطلب   خو بصو رت اس کا ایک مطلب آزاد  بھی ہے  ۔ یہ لقب دینے کی ایک وجہ یہ بھی بیا ن کی جا تی ہے کہ ان کی طرف دیکھ کر فر ما یا تھا :

غر ض اسلا م میں یہ پہلا لقب ہے جو کسی کو ملا ۔ قر یش میں حضر ت ابو بکر ؑ کا مر تبہ بہت بلند تھا آپ بہت خو ش اخلا ق تھے ۔ قر یش کے سردا رو ں میں سے ایک تھے ۔ شر یف سخی اور دولت مند تھے ۔ رو پیہ پیسہ  بہت فرا خ دلی سے خر چ کر تے تھے ۔ ان کی قو م کے لو گ انہیں بہت  چا ہتے تھے ۔ لو گ  ان کی مجلس میں بیٹھنا بہت پسند کر تے تھے ۔ اپنے زما نے میں حضر ت ابو بکر  صدیق ؑ خوا ب کی تعمیر بتا نے میں بہت ما ہر اور مشہو ر تھے ۔چنا نچہ علا مہ بن سیر ین ؒ کہتے ہیں :

نبی اکر م ﷺ کے بعد حضر تے ابو بکر ؑ اس امت میں سب سے بہتر ین تعبیر بتا نے  والے عا لم ہیں ۔

علا مہ بن سیر ین ؒ  خوا بوں کی تعبیر بتا نے میں بہت ما ہر تھے اور اس سلسلے میں ان کی کتا بیں مو جو د ہیں اس کتا ب میں خو ابو ں کی حیر ت انگیز تعبیر درج ہیں ۔ ان کی بتا ئی ہو ئی تعبیر یں با لکل درست ثا بت ہو تی رہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ اس میدا ن کے ما ہر اس با رے میں حضر ت ابو بکر صدیق کو نبی کر یم ﷺ کے بعد سب سے بہتر تعبیر بتا نے والے فر ما رہے ہیں ۔

ابو بکر صدیق ؑ نسب نا مہ بیا ن کر نے میں  بھی بہت ما ہر تھے بلکہ کہا جا تا ہے کہ اس علم کے بڑ ے عا لم تھے ۔ حضر ت جبیر بن مطعم بھی  اس علم کے ما ہر تھے وہ فر ما تے ہیں :

میں نے سب نا مو ں کا فن اور علم اور خا ص طو ر پر قر یش کے نسب نا مو ں کا علم حضر ت ابو بکر صدیق ؑ سے ہی حا صل کیا ہے ، اس لئے کہ قہ قر یش کے نسب نا مو ں کے سب سے بڑ ے عا لم   تھے ۔ قر یش کے  لو گو ں کو مشکل پیش آتی تو حضر تے ابو بکر صدیق ؑ سے رابطہ کر تے تھے ۔

کتا ب کے تا لیف عبداللہ فا رانی