آپ ﷺ کے اس ارشا د کا مطلب یہ تھا کہ اگر آج بھی کو ئی مظلو م یہ کہہ کر آواز دے اے حلف الفضول والو تو میں اس کی فر یا د کو ضرور پہنچو گا کیو ں کہ اسلا م تو آیا ہی اس لئے ہے کہ سپا ئی کا نا م بلند کر ے اور مظلو م کی مدد اورحما یت کر ئے
یہ حلف الفضول بعد میں بھی جا ری رہا مکہ میں آپ ﷺ کو آپ ﷺ کی اما نت اور دیا نت داری کی وجہ سے امین کہہ کر پکا را جا نے لگا تھا آپ ﷺ کا یہ لقب بہت مشہو ر ہو گیا تھا لو گ آپ ﷺ کو امین کے علا وہ کسی اور نا م سے نہیں پکا رتے تھے
پہلا تجارتی سفر
انہی دنو ں ابو طا لب نے آپ ﷺ سے کہا اے بھتیجے میں غریب آدمی ہو ن اور قحط سا لی کی وجہ سے زیا دہ سخت حا لا ت کا سا منا کر رہا ہو ں کا فی عر صے سے خشک سالی کا دور چل رہا ہے کو ئی ایسا ذرئعہ نہیں کہ اپنا کو ئی کا م چلا سکیں اور نہ ہی ہما را کو ئی تجا رت کا ذرئعہ ہے ایک تجا رتی قا فلہ شا م جا نے والا ہے اس میں قریش کے لو گ شا مل ہیں قریش کی ایک خا تو ن خدیجہ بنت خویلد شا م کی طرف پنا تجا رتی سا ما ن بھیجا کر تی ہیں جو شخص ان کا ما ل لے کر جا تا ہے وہ اپنی اجرت ان سے طے کر لیتا ہے اگر تم ان کے پا س جا واور ان کا مال لے جا نے کی پیش کش کرو تو وہ ضرور اپنا ما ل تمھیں دے دیں گی کیو نکہ تمھا ری اما نت داری کی شہرت ان تک پہنچ چکی ہے اگر چہ میں اس با ت کو پسند نہیں کر تا کہ تم شا م کے سفر کر جا و یہو دی تمھا رے دشنم ہیں لیکن حا لا ت کی وجہ سے میں مجبور ہوں اس کے علا وہ کو ئی چا رہ بھی تو نہیں یہاں تک کہ ابو طا لب خا مو ش ہو گئے تب آپ ﷺ نے فر ما یا :
ممکن ہے کہ وہ خا تو ن کسی کو میرے پا س خو د بھیجے یہ با ت آپ ﷺ نے اس لئے کہی کہ حضرت خدیجہ کو اس وقت اما نت دار شخص کی ضرورت تھی اور مکہ میں اس وقت آپ ﷺ کے علا وہ کو ئی بھی اما نت دار شریف پا ک با ز اور سمجھ دار نہیں تھا ابو طا لب اس وقت بہت پر یشا ن ہو ئے آپ ﷺ کی با ت سن کر انہو ں نے کہا اگر تم نہ گئے تو مجھے ڈر ہے کہ وہ کسی اور سے معاملہ طے نہ کر لیں یہ کہہ کر ابو طا لب اٹھ گئے ادھر آپ ﷺ کو یقین تھا کہ حضرت خدیجہ کسی نہ کسی کو خو د آپ ﷺ کے پا بھیجے گی اور ہو ا بھی ایسے ہی حضرت حدیجہ نے اللہ کے رسول ﷺ کو بلا وا بھیجا پھر آپ نے کہا :میں نے آپ ﷺ کی سچا ئی اما نت داری اور نیک خیا ل کے با رے میں سنا ہے اور اسے وجہ سے آپ ﷺکو بلو ایا ہے جو معاوضہ آپ ﷺ کی قوم کے لو گو ں کو دیتی ہوں اُس سے دو گنا دے دوں گی آپ ﷺ نے ان کی یہ با ت منظو ر فر ما لی پھر اپنے چچا ابو طالب سے ملے ابو طا لب یہ سن کر بو لے
شام کی طر ف روانہ
یہ رو زی تمھا رے لئے اللہ نے پیدا فر ما ئی ہے اس کے بعد آپ ﷺ حضرت خدیجہ کا سا ما ن لے کر شا م کی طر ف تجا رت کے لئے روا نہ ہو گئے سیدہ خدیجہ کے غلا م میسرہ آپ ﷺ کے ساتھ تھے روانگی کے وقت سیدہ خدیجہ نے میسرہ سے کہا کہ کسی معا ملے میں ان کی نا فر ما نی نہ کر نا جو یہ کہیں وہ ہی کر نا ان کی کسی با ت سے اختلا ف نہ کر نا آپ ﷺ کے سب چچا وں نے قا فلے والو ں سے خبر گیری رکھنے کی در خو است کی اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ذمہ داری کے لحا ظ سے آپ ﷺ کا یہ پہلا تجا رت کا سفر تھا
ادھر روانہ ہو ئے تو معجزہ شروع ہو گیا ایک بد لی نے آپ ﷺ پر سا یہ کر لیا آپ ﷺ کے ساتھ ساتھ چلنے لگی جب آپ ﷺ شا م پہنچے تو بصری شہر کے با زار میں ایک درخت کے سائے میں اتر ئے یہ درخت ایک عیسائی را ہب نسطورا کا تھا اس را ہب نے میسرہ کو دیکھا تو خا نقا ہ سے نکل آیا اس وقت اس نے آپ ﷺ کو دیکھا آپ ﷺ درخت کے نیچے ٹھہرے ہو ئے تھے اس نے میسرہ سے پو چھا کہ شخص کو ن ہے جو در خت کے مو جو د ہے
غلا م میسرہ اور نسطو را کی گفتگو
میسرہ نے کہا یہ ایک قریشی شخص ہے حر م وا لو ں میں سے ہے یہ سن کر رز ہب نے کہا اس درخت کے نیچے نبی کے سوا کو ئی آدمی نہیں بیٹھا اس کے بعد اس نے میسرہ سے پو چھا کیا ان کی آنکھو ں میں سر خی ہے ہا ں بلکل اور یہ سر خی ان کی آنکھو ں میں مستقل رہتی ہے
اب نسطورا نے کہا یہ وہ ہی ہے میسرہ نے حیران ہو کر اس کی طر ف دیکھا اور بو لا کیا مطلب یہ وہ ہی ہیں کو ن وہ ہی ؟اس کے بعد وہ چپکے سے آ پﷺ کے پا س پہنچا پہلے تو اس نے آپ ﷺ کے سر کو بو سہ دیا پھر آپﷺ کے پیروں کو بو سہ دیا اور بو لا :میں آپ ﷺ پر ایما ن لا تا ہوں اور گواہی دیتا ہو ں جس کا ذکر اللہ پا ک نے تو رات میں کیا آپ ﷺ وہ ہی ہیں اس کے بعد نسطو را نے کہا اے محمد ﷺ میں نے آپ ﷺ میں و ہ تما م نشا نیا ں دیکھ لی ہیں جو پرانی کتا بو ں میں آ پ ﷺ کی نبو ت کی علامتو ں کت طور پر درج ہیں صرف ایک نشا نی با قی ہے اس لئے آپ ﷺ ذرا اپنے کندھے سے کپڑا ہٹا ئیں
آپ ﷺ نے اپنے ا نے مبا رک سے کپڑا ہٹا یا تب نسطو را نے مہر نبوت کو جگمگتا تے ہو ئے دیکھا میں گو اہی دیتا ہو ں کہ اللہ کے سوا کو ئی عبا دت کے لا ئق نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے آکری رسول اور نبی ہیں