قصے کہا نی :
قرآن مجید میں چو نکہ بہت سے قصے بیا ن ہو ئے ہیں جیسے کہ حضرت مو سی ٰ علیہ اسلا م اور فر عون کے واقعا ت ، غا ر والے نو جوا نو ں کا وقعہ ، آگ کی خندق میں ڈالے جا نے کا واقعہ ڈیم بنا نے والی قوم کا واقعہ اسی طرح اور بے شما ر واقعات ہیں مشر کین مکہ نے شا ید یہ سمجھا کہ حضرت محمد ﷺ یہ واقعا ت سنا تے ہیں اس لئے لو گ آپ کی با تیں سننے لگ جا تے ہیں اور بعد میں بت پر ستی چھو ڑ دیتے ہیں ۔ انہو ں نے بھی مختلف قصے سنا نا شروع کر دیے لیکن ان کا یہ حربہ بھی نا کا م رہا کیو نکہ قرآن مجید صر ف قصے ہی نہیں بیا ن کر تا بلکہ ان قصو ں میں انسا ن کے لئے جو عبر ت اور نصیحت ہے وہ بھی بیا ن کر تا ہے ۔ ویسے بھی قرآن کا اسلوب اتنا پیارا ہے کہ جسے نہ بھی سمجھ ہو وہ بھی سنتا چلا جا تا ہے ۔ جیسے کہ لو گ کل بھی قرآن کا مطلب نہیں جا نتے تھے مگر پھر بھی بڑے شوق سے قرآن سنتے ہیں ۔اور سنیں بھی کیو ں نا ؟ یہ قرآن ہے اتنا پیا را ، کیو نکہ یہ اللہ پا ک کا کلا م ہے جس سے انسا ن کبھی نہیں اکتا تا ۔
ظلم و ستم :
انسا ن کی عادت ہے کہ جب وہ کسی سے نفرت کر تا ہے تو اپنا غصہ نکا لنے کےلئے ہا تھا پا ئی کر نے لگ جا تا ہے ۔ ایسا ہی مشر کین مکہ نے بھی کیا کہ جب انہو ں نے دیکھا کہ مسلما ن بڑ ھتے ہی جا رہے ہیں تو انہو ں نے ان پر ظلم و ستم کر نا شروع کر دیا ۔ ایسے ایسے لم کیے کہ انسا ن کے تصور سے ہی کا نپ جا تے ۔
چند مظا لم :
آپ ﷺکا نا م بگا ڑا گیا ۔
طعن وتشنیع کی گی ۔
سجدےکی حا لت میں گند گی پھینکی گئی ۔
بیٹے کے انتقال پرابتر کہا گیا۔
چہر ے پر پتھر مارا گیا ۔
کعبہ میں نما ز کے لئے روک دیا گیا۔
آپﷺ کےصحا بہ علیہاسلا م کو ما را پیٹا گیا ۔
عثما ن ؑ کے چچا انہیں کھجو ر کی چٹا ئی میں لپیٹ کر نیچے سے دھواں دیتے ۔
مصعب بن عمر ؑ کی والدہنےانہیں گھر سے ہی نکال دیا۔
بلا ل ؑکوگلےمیں راسی ڈ ال کر مکہ کےپہا ڑ وںمیں گھسیٹاگیا۔
ڈنڈےا رے گئے۔
بھوکاپیاسا رکھاگیا۔
گر م زمین پر لٹا کرسینے پرپتھررکھےگئے۔
حتی کہ بعض صحابہ کو توشہیدبھیکردیا گیا۔
اسلا م کی سب سے پہلےشہیدخا تو ں حضرت سمیہ ؑ ہیں جنہیں اسلا م نہ چھو ڑنے پر شہید کیاگیا ۔ ان کی ایک ٹا نگ پر رسی با ندھ کر ایک اونٹ کے ساتھ اور دو سری ٹا نگ پر رسی با ند ھ کر دوسرے اونٹ کے ساتھ با ند ھ دیا ۔ اونٹوں کو مخا لف سمت میں بھگا یا ، ٹا نگیں ٹو ٹگئیں اور ایک نیزہ شرمگا ہ پر ما ر کر شہید کر دیا گیا ۔
اللہ پا ک ان سب سے راضی ہوجا ئے آمین
مگرانسب کے با وجو د ان میں سے کو ئی بھی ایما ن سے منحر ف نہ ہو ا ۔ اسلانہ چھو ڑا ۔ اس سب میں ہما رے لئے یہ نصیحت ہے کہ ہم بھی اسلا م پر عممل کر یں ۔ہا رے اسلا ف اور بڑے اسلام کی خا طراتنی تکلیفیں سہتےرہےمگرانہوں نے اسلا م نہ چھو ڑا کیو نکہ اللہ پا ک کی نعمتو ں میں سے سب سے بڑی نعمت اسلا م کی نعمت ہے ۔
اللہ پا ک سے یہی دعا ہے کہ ہمیں اسلا م پر زندہ رکھے اور ایما ن کی حا لت میں مو ت دے ۔ آمین
قطعی تعلقی :
اس ک سب کے با وجو د جب لو گ اسلا نہ چھو ڑ رہے تھے سب مشر کین نے ملکر آپﷺاور آپ کےصحا بہاکرا ؑکاساشلمعاشرتی بائیکاکر دیا ۔
یہ بائیکا ٹ3 سال تک جا ری رہا اس کا قصہ الگ سے بیا ن کیا جا ئے گا ۔
آخر کا ر مکہ سے نکا ل دیا :
ایسے حا لا ت پیدا کر دیے کہ ابتدا میں صحا بہ کرام ؑ کو حبشی کی طرف اور پھر حتی کہ 13 بر س بعد آپ ﷺ کو ہی مکہ چھو ڑ کر مد ینہ کی طرف ہضرت کر نا پڑ ی ۔ ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ کا تذ کر ہ بھی ان کی اہمیت کے پیش نظر الگ سے آئے گا ۔ ان شا ء اللہ العظیم
ہجر ت حبشہ کےدلچسپ واقعات
اعلا ن نبو ت کے پانچو یں سال تک جب مشرکین کی تکالیف حد سےبڑ ھ گئیں تو آپﷺ کی اجا زتسےرجب کے مہینے میں 12 مرداور 4 عورتو ں پر مشتمل ایک چھو ٹے سے قا فلے نے حبشہ کی طرف ہجرت کی جس کے امیر سفر حضرت عثما ن ؑ تھے اور اس میں رسو ل اللہ ﷺ کی بیٹی رقیہ ؑ جو عثما ن ؑ کی بیو ی تھیں وہ شا مل تھیں ۔
بہت بڑ ا جھو ٹ ؛
جیسا کہ پہلے بتا یا جا چکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی عاد ت تھیکہ حر م میں قر آن مجید کی تلا وت کیا کر تے ۔ قریش اس وقت شور کر تے تا کہ لو گ قرآن نہ سن سکیں ۔ اسی سال رمضان میں نبی پا ک ﷺ حر م میں تلاوت کر رہے تھے ۔ اتفاقا وہا ں بہت سے سر د اران کفا ر بھی مو جو د تھے ۔ آپ ﷺ سور ۃ النجم کی تلا وت کر رہے تھے ۔ خو بصور ت کلا م اور خو بصورت آواز ، پڑ ھنے والے بھی وہ کہ جس پر قرآن پا ک نا زل ہو ا۔ اس درد سے پڑ ھا کہ جب آیت سجدہ آئی تو آپ ﷺ نے سجدہ کیا ہی مگر ساتھ ساتھ جو سن رہے تھے انہو ں نے بھی بے اختیا ری سے سجدہ کر لیا ۔ بس پھر کیا تھا ۔ ہر طرف مشہو ر ہو گیا بڑے بڑے سرداروں نے محمد ﷺ کے رب کو سجدہ کر لیا یعنی مسلما ن ہو گئے ہیں۔ یہ خبر پھیلتی پھیلتی حبشہ میں بھی چلی گئی۔وہ لو گ وہا ں سے واپس آگئے۔ابھی کہ یں داخل نہ ہوئے تھےکہ ان کومعلوم ہوا یہ خبرجھوٹی ہے۔
ہوایہ کہ :جب ان کفارکے سجدہ کی خبر مشہو ر ہو ئی تو وہ بڑے پر یشا ن ہو ئے کہ اب جن لو گو ں کو وہ کہتے تھے کہ قرآن نہ سنو اب قرآن سننے کے سبب انہو ں نے ہی بے اختیا ری میں سجدہ کر لیا ۔ ااس با ت حل انہو ں نے یہ نکا لا کہ نبی پا ک ﷺ پر جھوٹ با ند ھ ایا کہ سورت النجم کی تلا وت کے دوران آپ ﷺ نے کفا رکی دیو یدیوتاؤںبتو ں کی اہمیت ما ن لی ہے۔ کہنے لگے آپ ﷺ نے تلا وت کے دوران جب یہ کہا کہ
یہ بلندپا یہ دیویا ں ہیںاوران کی شفا ت کی امید کی جا تی ہے۔
یہ اتنا بڑا جھو ٹ تھا کہ جس کہ کو ئی حد نہیں ۔