اس کا نا م وبداللہ بن قمئہ تھا ۔ اس نے آپ ﷺ کو کند ھے پر تلوا ر مار ی ۔ آپ ﷺ نے زرہ پہنی ہو ئی تھی اس لئے بچ گئے لیکن تلوا ر بڑ ی زور سے لگی تھی ۔ بہت دیر تک درد ہو تی رہی ۔ پھر اس نے آنکھ پر تلو ار ما ری ۔ آپ ﷺ نے سر پر اور منہ پر ایک لو ہے کی ٹو پی پہنی ہو ئی تھی ۔ آنکھ تو بچ گئی مگر آنکھ کے نیچے اس زور سے لگی کہ وہ لو ہے ٹو پی جسے خو د کہتے ہیں ، اس کی نو ک آپ ﷺ کے چہر ے میں پھنس گی ۔
صحا بہ اکرا م ؑ کو سب سے زیا دہ آپ ﷺ کی فکر تھی ۔ لہذا ایک ایک کر کے سب ہی آپ ﷺ کی طرف بھا گے ۔ آپ ﷺ کے دو قر یبی دو ست ابو عبیدہ بن جرا ع اور ابو بکر صد یق ؑ اڑتے ہو ئے پہنچے ۔ جب انہو ں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کہ منہ پر لو ہے کی ٹو پی کا نو کیلا کنا رہ پھنسا ہے تو دو نو ں کی خو ا ہش تھی وہ اسے نکا لیں ۔ ابو عبید ہ ؑ نے ابو بکر صدیق ؑ سے در خو است کی کہ یہ کا م مجھے کر نے دو ۔ پھر اپنے دا نتو ں سے زور لگا کر وہ نو ک نکا لی ۔ وہ تو نقل گئی مگر زور لگا نے سے ان کے دو دانت بھی ٹو ٹ گئے ۔
کا فر وں نے ایک با ر پھر آپ ﷺ پر زور دار حملہ کیا ۔ صحا بی اکرا م ؑ آپ ﷺ اوپر ہو گئے تا کہ آپ ﷺ کو کو ئی تیر نہ لگ جا ئے ۔ اس طرح کئی صحا بی اکرام ؑ شہید ہو گئے ۔
صحا بہ اکرا م ؑ کی محبت کے انو کھے اندا ز :
ا رے صحا بہ اکرا م ؑ اپنے ما ں با پ سے زیا دہ آپ ﷺ سے محبت کر تے تھے ۔جب آپ ﷺ کسی کو آواز دیتے تو وہ آگے سے کہا کر تے تھے میر ے ما ں با پ آپ ﷺ پر قر با ن ہو جا ئیں ۔
سعد بن ابی وقا ص ؑ جن کے بھا ئی نے آپ ﷺ کو پتھر ما ر کر زخمی کیا تھا وہ بڑ ے اچھے تیر اندا ز تھے ۔ آپ ﷺ نے انہیں تیر پکڑا ئے اور ساتھ ساتھاانہیں کہتے کہ اےسعدمیر ے ما ں با پ آپ پر قر با ن ہو جا ئیں ،آپ تیرچلائیں اور یہ تیر چلا تے ۔
اندا زہ لگا ئیں کہ نبی پا ک ﷺ سعد ؑ سے کتنا پیا ر کر تے تھے ۔ اللہ پا ک ان پر رحمت فر ما ئے اور ہمیں بھی نبی پا ک ﷺ کے سا رے صحا بی اکرام ؑ سے ایسی ہی محبت کر نے کی تو فیق عطا فر ما ئے ۔ آمین
جب کا فر بھا گ گئے تو حضر ت علی ؑ پا نی لے کر نبی پا ک ﷺ کے پا س آئے تا کہ آپ ﷺ اس سے اپنا خو بصو ر ت چہرہ دھو لیں کیو نکہ آپ ﷺ کے چہر ے انور سے بہت زیا دہ خو ن نکل رہا تھا ۔ فا طمہ نے ؑ آپ ﷺ کا چہرا دھو یا ۔
ابو سفیا ن کا چیلنج :
کا فر وں کا سر دار ابو سفیا ن دور کھڑا تھا ۔ اس نے آوا زلگا ئی کہ کیا محمد ﷺ شہید ہو گئے ہیں یا نہیں ۔ کسی نے جوا ب نہیں دیا تو پھر اس نے ابو بکر و عمر ؑ کے با رے میں پو چھا ۔ پہلے تو کسی نے جو اب نہیں دیا ۔ مگر پھر عمر ؑ نے غصے سے کہا کہ سب ہی مو جو د ہیں ۔مکہ میں جو بڑ ے بر ے تھے ان میں دو مشہو ر بتو ں کے نا م ھبل اور عزی تھے ۔ لو گ ان کی پو جا کیا کر تے تھے ۔ ابو سفیا ن نے نعرہ لگا یا کہ ھبل بلند ہو
آپ ﷺ نے فر ما یا کہو اللہ ہی سب سے بڑا اور بر تر ہے ۔
ابو سفیا ن نے پھر نعرہ لگا یا ہما رے لئے عزیٰ ہے اور تمہا رے لئے عزی نہیں ۔
یہ تو بہت بر ی بے و قو فی کی با ت تھی کیو نکہ جس کا اللہ ہو اسے بتو ں کی کیا ضرو رت ہے ۔
آپ ﷺ نے فر ما یا کہ جو اب دو کہ اللہ ہما را مو لی ہے اور تمہا را کو ئی مو لا نہیں ۔
پھر ابو سفیا ن نے طعنہ دتے ہو ئے کہا کہ ہم نے بدر کا بد لہ لے لیا ہے ۔
یہغورکرتاتوکبھی نہ یہ جملہ کہا تا کیو نکہ غزوہ بدر اور غزوہ احد میں یہی کا فربھا گےتھے۔مسلمان نہ بدرمیں بھا گے نہ احد میں ۔فتح اس کی ہو تی ہے جو میدان جنگ سے نہ بھا گے یہ با تیں ان کی سمجھ سے با ہر تھیں لہذا شور مچا ئی جا رہے تھے ۔
حضر ت عمر ؑ نےفر مایاکہ برابری کیسےہوئی؟یعنی غزوہ بدرکابدلہ کیسے کہہ سکتےہیں؟ کیو نک ہمارےجوبندے شہیدہوئےہیں وہ تو جنت میں ہیں اورتہارے جوبندےمارے گئےہیں وہ جہنم میں ہیں۔
پھرابو سفیان کہنےلگاآئندہ سال بدرمیں پھر لڑ یں گے۔ آپ ﷺ کو اندازہ تھا کہ یہ خا لی بڑھکیں ہی ہیں ۔ آپ ﷺ نے اس کا چیلنج قبو ل کر لیا ۔
پو رے سال بعد آپ ﷺ نکلے مگر وہ جو بڑ ی بڑ ھکیں ما رتا ہو ا چیلز کر کے گیا تھا وہ آ یا ہی نہیں ۔
جب کا فر چلے گئے تو آپ ﷺ نے اس جنگ میں شہید ہو نے والے صحا بہ کرا م ؑ کے کفن دفن کا انتظا م کیا ۔ آپ ﷺ بڑ ے غزدہ تھے ۔ کا فر وں نے لا شو ں کی بر ی بے حر تی کی تھی ۔بازو، نہ ،ناک، کان ، ہا تھ، پا ؤ ں کا ٹے اور پیٹ پھا ڑ دیئے ۔ سب سے زیا دہ برا حا ل سید نا حمزہ ؑ کا کیا ۔ آپ ﷺ نے انہیں سید شہید اء یعنی شہیدوں کو سردار کہا ۔