حضرت اُمّ عمارہ کا اصل نام نؤسیبہ تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو بھاگتے دیکھا اور مشرکوں کو نبی کریم کے گرد جمع ہوتے دیکھا تو بے چین ہوگئیں ، جلدی سے آپ کے قریب پہنچیں اور تلوار کے ذریعے دشمنوں سے لڑنے لگیں ۔تلوار چلاتے چلاتے جب زخمی ہوگئیں ، تو تیر کمان سنبھال لیا اور مشرکوں پر تیر چلانے لگیں ۔ایسے میں انہوں نے ابن قمیہ مشرک کو آتے دیکھا، وہ یہ کہتا ہوا چلا آرہا تھا: “مجھے بتاؤ محمد کہاں ہیں ؟ اگر آج وہ بچ گئے تو سمجھو، میں نہیں بچا۔”یہ کہنے سے اس کا مقصد یہ تھا کہ آج یا وہ رہیں گے یا میں رہوں گا۔، جب وہ قریب آیا تو حضرت اُمّ عمارہ اور مصعب بن عمیر نے اس کا راستہ روکا، اسی وقت اس نے حضرت اُمّ عمارہ پر حملہ کیا، ان کے کندھے پر زخم آیا، حضرت ام عمارہ نے بھی اس پر تلوار کے کئی وار کیے، مگر وہ زرہیں پہنے ہوئے تھا۔ان کے وار سے محفوظ رہا۔ان کی کوششوں کو دیکھ کر حضور نبی کریم نے ارشاد فرمایا: “الله تمہارے گھرانے میں برکت عطا فرمائے۔”اس پر حضرت ام عمارہ نے عرض کیا:”الله کے رسول! ہمارے لیے دعا فرمایئے کہ ہم جنت میں آپ کے ساتھ ہوں “آپ نے فرمایا: “اے الله انہیں جنت میں میرا رفیق اور ساتھی بنا۔”اس وقت حضرت ام عمارہ نے کہا: “اب مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ دنیا میں مجھ پر کیا گزرتی ہے۔”
مبارک موت
نبی اکرم فرماتے ہیں : “احد کے دن میں دائیں بائیں جدھر بھی دیکھتا تھا، اُمّ عمارہ کو دیکھتا تھا کہ میرے بچاؤ اور میری حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا کر دشمنوں سے لڑ رہی ہیں ۔”غزوہ احد میں حضرت اُمّ عمارہ کو بارہ زخم آئے۔ان میں نیزوں کے زخم بھی تھے اور تلواروں کے بھی۔اس روز حضرت ابودجانہ نے بھی اپنے جسم کو نبی اکرم کے لیے ڈھال بنالیا تھا۔جو تیر آتا، وہ اس کو اپنی کمر پر روکتے، یعنی انہوں نے اپنا منہ حضور نبی کریم کی طرف کر رکھا تھا، اس طرح وہ تمام تیر اپنی کمر پر لے رہے تھے۔تاکہ آپ محفوظ رہیں ۔اس طرح ان کی کمر میں بہت سے تیر پیوست ہوگئے۔اسی طرح حضرت زیاد بن عمارہ بھی آپ کی حفاظت میں مردانہ وار زخم کھا رہے تھے۔یہاں تک کہ زخموں سے چور ہوکر گر پڑے، آپ نے ارشاد فرمایا: “انہیں میرے قریب لاؤ۔”ان کی خوش قسمتی دیکھیئے کہ انہیں آپ کے قریب لایا گیا، جب انہیں زمین پر لٹایا گیا تو انہوں نے اپنا منہ اور رخسار حضور کے قدموں پر رکھ دیے اور اسی حالت میں جان دے دی کس قدر مبارک موت تھی ان کی!!
ابی بن خلف
اسی طرح حضرت مصعب بن عمیر حضور کو بچاتے ہوئے ابن قمیہ کے ہاتھوں شہید ہوئے۔دراصل ابن قمیہ حضرت مصعب بن عمیر کو حضور سمجھ رہا تھا، اس لیے کہ ان کی شکل حضور اکرم سے ملتی جلتی تھی۔چنانچہ جب اس نے شہید کیا تو قریش کے سرداروں کو جاکر اطلاع دی کہ اس نے رسول الله کو شہید کردیا ہے، حالانکہ اس نے حضرت مصعب بن عمیر کو شہید کیا تھا۔اسی دوران ابی بن خلف رسول الله کی طرف بڑھا۔اس پر کئی صحابہ اس کے راستے میں آگئے، لیکن حضور نے ارشاد فرمایا: “اسے میری طرف آنے دو۔”پھر آپ یہ کہتے ہوئے اس کی طرف بڑھے: “اے جھوٹے! کہاں بھاگتا ہے؟ “پھر حضور نے اپنے ایک صحابی کے ہاتھ سے ایک نیزہ لیا اور نیزے کی نوک ابی بن خلف کی گردن میں بہت ہی آہستہ سے چبھو دی، مطلب یہ کہ نیزہ اس قدر آہستہ چبھویا کہ اس سے خون بھی نہیں نکلا مگر اس ہلکی سی خراش ہی سے وہ بری طرح چیختا ہوا وہاں سے بھاگا وہ کہہ رہا تھا: “خدا کی قسم! محمد نے مجھے مار ڈالا۔”مشرکوں نے اسے روکنے کی کوشش کی اور کہا: “تو تو بہت چھوٹے دل کا نکلا تیری عقل جاتی رہی، اپنے پہلو میں تیر لیے پھرتا ہے، تیراندازی کرتا ہے اور تجھے کوئی زخم بھی نہیں آیا لیکن چیخ کتنا رہا ہے، ایک معمولی سی خراش ہے ایسی خراش پر تو ہم اف بھی نہیں کرتے۔”اس پر ابی بن خلف نے درد سے کراہتے ہوئے کہا: “لات اور عزیٰ کی قسم! اس وقت مجھے جس قدر شدید تکلیف ہورہی ہے، اگر وہ ذی المجاز کے میلے میں سارے آدمیوں پر بھی تقسیم کردی جائے تو سب کے سب مرجائیں
۔”بات دراصل یہ تھی کہ مکہ میں ابی بن خلف نبی اکرم سے کہا کرتا تھا:”اے محمد! میرے پاس ایک بہترین گھوڑا ہے، میں اسے روزانہ بارہ مرتبہ چارہ کھلا کر موٹا کررہا ہوں ، اس پر سوار ہوکر میں تمہیں قتل کروں گا۔”اس کی بکواس سن کر حضور پر فرماتے تھے”انشاءاللہ! میں خود تجھے قتل کروں گا۔”اب جب اسے آپ کے ہاتھوں خراش پہنچی تو اس کی ناقابل برداشت تکلیف نے اسے چیخنے پر مجبور کردیا وہ بار بار لوٹ پوٹ ہورہا تھا اور کسی ذبیح کیے ہوئے بیل کی طرح ذکرا رہا تھا۔اس کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے اس کے کچھ ساتھی اسے ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے، لیکن اس نے راستے میں ہی دم توڑ دیا۔ایک حدیث میں آتا ہے: “وہ شخص جسے نبی نے قتل کیا ہو یا جسے نبی کے حکم سے قتل کیا گیا ہو، اسے اس کے قتل کے وقت سے قیامت کے دن تک عذاب دیا جاتا رہے گا۔”ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں “سب سے زیادہ سخت عذاب اسے ہوتا ہے جسے نبی نے خود قتل کیا ہو۔”احد کی لڑائی شروع ہونے سے پہلے ایک فتنہ باز کافر ابو عامر نے جگہ جگہ گڑھے کھود دیے تھے، تاکہ مسلمان بے خبری میں ان میں گرجائیں اور نقصان اٹھاتے رہیں ، یہ شخص حضرت حنظلہ کا باپ تھا اور حضرت حنظلہ وہ ہیں جنہیں فرشتوں نے غسل دیا تھا۔