سیر ت النبی ﷺ حصہ27

ستر صحا بہ اکرام کی دھو کہ سے شہا دت :

اس ما ہ یعنی ہجرت کے چو تھے سال صفر میں ہی ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور آپ نے اسے اسلا م کی دعوت دی مگر اس نے قبو ل نہ کی کہنے لگا آپ اپنے چند صحا بہ اکرام کو میرے ساتھ بھیجیں تا کہ وہ اہل نجد کو اسلا م کی دعوت دیں شا ید وہ اسے قبول کر لے آپ نے اپنے بہت ہی پیا رے سا تھیو ں کو اس کے ساتھ بھیج دیا تا کہ وہ انہیں اسلا م کی تبلیغ کریں راستے میں کنو یں پڑتا تھاجس کا نا م معونہ تھا وہا ں قر یب ہی عا مر نا می ایک آدمی رہتا تھا وہ آپ کا بہت بڑا دشمن تھا صحابہ نے نبی پا ک کا خط دے کر ایک آدمی کو اس کے پا س بھیجا کہ شا ید اسے پڑھ کر اس کا دل نر م ہو جا ئے اور وہ اسلا م قبول کر لے لیکن اس نے خط پڑھے بغیر ہی انہیں شہید کر دیا پھر اپنے سا تھو ں کے ساتھ صحابہ اکرام پر حملہ کر دیا اور سب کے سب صحابہ کو شہید کر دیا صرف تین صحا بہ بچ گئے وہ بھی ایسے کہ وہ اونٹ چرانے گئے تھے اور ایک شدید زخمی ہو ئے ان دونوں کو جب پتہ چلا کہ اس طر ح لڑائی ہو ئی ہے تو وہ اپنے دوستو ں کو بچا نے ان کی طر ف بھا گے مشرکو ں نے ان دنو ں میں سے ایک کو شہید کر دیا عامر نا می دشمن جس نے دھو کے سے یہ سب کا روائی کی تھی اس کی ما ں نے نذر ما نی تھی کی میں ایک غلا م آزاد کر وں گی عا مر نے بچ جا نے والے دوسرے مسلما ن جن کا نا م عمرو بن امیہ تھا کو اپنی ما ں کی نذر پو ری کر تے ہو ئے آزاد کر دیا یہ ابھی واپس آرہے تھے کہ راستے میں ایک جگہ آرام کے لئے لیٹ گئے اتنے ایک قبیلے کے دو آدمی وہا ں آئے اور وہ بھی اسی سا ئے والی جگہ پر لیٹ گئے

دراصل ایک آدمی جس کے ستر دوستوں کو دھو کے سے قتل کر دیا گیا ہو وہ اپنی حفا ظت کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے شا ید اسی لئے جب وہ دنو ں سو گئے تو انہوں نے ان دنو ں کو قتل کر دیا  جب مدینہ پہنچے تو انہیں پتہ چلا کہ اُن دنو ں کو خا ند ان کی طر ف سے عہد ملا تھا یعنی ان کو کچھ نہیں کہا جا ئے گا  جب کو ئی بندہ غلطی سے ما را جا ئے تو اس کے بد لے قا تل کو نہیں ما رتے بلکہ قتل ہو نے والے کے گھر والو ں کو بہت بڑی رقم دی جا تی ہے جسے دیت کہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہو تی ہے کہ ما رنے والے نے غلطی سے ما ر دیا تھا اگر وہ جا ن بو جھ کر کسی مسلما ن کو ما رتا تو اس کے بد لے میں قا تل کو بھی قتل کیا جا تا یہ چو نکہ غلطی سے ما رے گئے لہذا آپ نے ان دنو ں کو دیت دینے کا ارادہ کیا دیت کی کہا نی آگے آرہی ہے

سب مسلما ن ہی اس اندھنا ک واقعہ پر بڑے دکھی تھے غزوہ احد میں جو ستر مسلما ن شہید ہو ئے تھے وہ تو چلو لڑے تھے یہ ستر کے ستر تو دھو کے سے شہید ہو گئے تھے آپ ﷺ کو بھی ان صحا بہ اکرام کی شہا دت کا بہت ہی غم تھا  آپ نے فجر کی نما ز کی دوسرے رکعت میں رکو ع کے بعد ہا تھ اٹھا کر لگا تا ر تیس دن شہید کر نے والو ں کے خلا ف بد د عاکی ایسے بد دعا کر نے کو قنوت نا زلہ کہتے ہیں ہمیں سو چنا چا ہیئے کہ لو گو ں نے تبلیغ دین کے لئے کس قدر قر با نیا ں دیں تب جا کر یہ پیا را دیں ہمیں ملا یب ہما رے ذمے ہے کہ اب ہم دل وجا ن سے اس پر عمل کر یں اور ہر ممکن طر یقے سے اسے لو گو ں تک پہنچا ئیں اللہ پا ک ہمیں یہ کا م کر نے کی تو فیق عطا فر ما ئیں آمین ۔

نبی کر یم کے قتل کی سا زش کی کہا نی :

ستر صحا بی کو شہید کر دیا گیا مگر ایک صحا بہ بچ گئے جن کا نا م عمروہ بن امیہ ضمری تھا یہ ان کا فر وں سے بچ کر بھا گتے ہو ئے واپس آرہے تھے کہ ایک جگہ پر آرام کے لئے لیٹے تو دو بندے بھی وہاں آکر لیٹ گئے جب وہ سو گئے تو انہوں نے اسی دشمن کا آدمی سمجھ کر کا ر دیا اگر انہیں پتہ چل جا تا تو کبھی نہ ما رتے جو بندہ غلطی سے ما را جا ئے اس کی دیت دی جا تی ہے یعنی ہر مر نے والے بندے کے بدلے اس کے گھر والو ں کو ایک ایک خا ص رقم دی جا تی ہے جب آپ کو پتہ چلا کہ اس طرح انہوں نے غلطی سے دو یہودی ما دیئے ہیں تو آپ ان کی دیت دینے کے لئے بنو نضیر کے پا س گئے غزوہ احد کے بعد یہ لو گ بڑے بد تمیز ہو گئے تھے با ت با ت پر لڑنے کی کو شش کر تے شا ید یہ سمجھتے تھے کہ غزوہ احد کے بعد مسلما ن کمزور ہو گئے ہیں

لہذا جب آپ ان کے پا س گئے  تو انہیں ایک مکا ن کی دیو ار کے ساتھ بٹھا یا اور انہیں کہا کہ ہم لو گ آپس میں مشورہ کر کے آپ کو بتا تے ہیں آپ انتظار کر یں اندر جا کر کچھ لو گ کہنے لگے کہ یہ مو قع اچھا ہے کہ اوپر سے ان پر چکی کا پا ٹ گرا دو تا کہ یہ شہید ہو جا ئیں ایک سمجھدار بندہ کہنے لگا تمھا رے گرانے سے پہلے ہی خضرت محمد کے رب نے تمھا ری اس سا زش کو وحی کے ذریعے سے بتا دینا ہے کہ لہذاکو ئی فا ئدہ نہیں لیکن یہو دی نہ ما نے اور حجا ش نا می ایک بند ہ چکی گرا نے کے لئےچھت پر چڑھ گیا نیچے دیکھا تو آپ وہا ں سے جا چکے تھے کیو نکہ اللہ پا ک نے آپ کو ان نے منصو بے کا بتا دیا تھا پھر آپ نے اور صحا بہ اکرام نے انہیں گھیر لیا اور کہا کہ دس دن کے اند ر اندر مد ینے سے نکل جا وانہو ں نے ساما ن پیک کر نا شروع کر دیا لیکن با با عبد اللہ ان کے پا س گیا اور کہنے لگا کہ تم نے ہیا ں سے بھا گنا نہیں میں تمھا رے ساتھ ہو ں اس یقین دھا نی پر وہ لو گ پکے ہو گئے کہ اب تو لڑ کر ہی ہٹیں گے ان کی بستی کے پا س درخت تھے وہ لو گ اس کے پیچھے چھپ چھپ کر تیر چلا تے آپﷺ نے حکم دیا کہ درخت کا ٹ کر جلا دیں جب با بے عبداللہ نے آپﷺ کو غصہ میں دیکھا تو چپ کر کے بیٹھ گیا اور یہو دیوں کی کو ئی مدد نہ کی ویسے بھی جنگ سے اس کی جا ن جا تی تھے اب یہو دی پھنس گئے

پندرہ دن بعد انہو ں نے عرض کیا کہ وہ خودہی چلے جا تے ہیں آپ ﷺ نے انہیں اجا زت دے دی لیکن اسلحہ لے کر جا نے نہیں دیا اگر وہ اسلحہ لے کر جا تے تو کیا پتہ دوبا رہ لڑنے آجا تے یو ں یہو دیوں کا دوسرا بڑا قبیلہ بھی مدینہ سے بھا گ گیا

محمد صا رم (مسلم ریسرچ سنٹر سے اقتبا س )

Leave a Reply