مفہوم
دینِ اسلام کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دینِ فطرت ہے ،لہٰذا اسلام کا ہر حکم اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کے عین کے مطابق ہے۔
’’تبنِّی‘‘ یعنی کسی کومتبنّیٰ یامنہ بولابیٹا (یابیٹی) بنانے میں قدم قدم پرایسی قباحتیں ہیں جواللہ کی بنائی ہوئی انسانی فطرت سے مکمل طورپرمتصادم ہیں ۔
قرآنی تعلیم
اس سلسلے میں قرآنی تعلیم یہ ہے کہ ’’اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کوتمہارابیٹانہیں بنایا،یہ توتمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں ،جبکہ اللہ توحق بات بتاتاہے اورسیدھی راہ سجھاتاہے)
اس کے بعدمزیدارشادِربانی ہوا ’’تم ان [اپنے منہ بولے بیٹوں ]کوپکاروان کے حقیقی باپوں کی طرف نسبت کرکے‘‘۔
یعنی ان آیات میں منہ بولابیٹا(یابیٹی) بنانے کی حرمت کاحکم نازل ہوا،اوریہ تاکیدکی گئی کہ ہرانسان کواس کے حقیقی باپ کابیٹاکہہ کرہی بلایاجائے اوراسی کی طرف نسبت کی جائے،نہ کہ کسی اورکی طرف۔
تفصیل
چنانچہ جب کوئی میاں بیوی کسی پرائے بچے کوگودلیتے ہیں ،اورپھردنیاکے سامنے نیزاس بچے کے سامنے بھی ہمیشہ یہی ظاہرکرتے ہیں کہ وہ ان کاحقیقی بچہ ہے ،اوروہ اس کے حقیقی ماں باپ ہیں اسی کیفیت میں وہ بچہ پروان چڑھتاہے ،حتیٰ کہ بڑاہوجاتاہے۔
لیکن قانونِ قدرت یہی ہے کہ حقیقت ہرگز ہرگز چھپ نہیں سکتی چنانچہ اس بارے میں جب حقیقت منکشف ہوتی ہے تویہ چیزاس شخص (یعنی منہ بولی اولاد) کیلئے بہت زیادہ ذہنی کرب اورنفسیاتی صدمے کاباعث بنتی ہے،اس کی شخصیت بری طرح ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے،جنہوں نے اسے پال پوس کربڑاکیا کسی قابل بنایا اب اس کے دل میں ان کیلئے وہ عزت باقی نہیں رہتی ،وہ جذباتی تعلقِ خاطرچکناچورہوجاتاہے کیونکہ اب وہ اس حقیقتِ حال کوجان چکاہوتاہے کہ میراتوان کے ساتھ دراصل کوئی رشتہ نہیں ہے،ابتک جو کچھ تھاوہ محض ایک فریب تھا
مزیدیہ کہ دوسری طرف جواس کے اصل والدین ہیں ،اب وہ ان کی تلاش میں سرگرداں رہنے لگتاہے ،یہی فکرہمہ وقت اس کے دل ودماغ پرچھائی رہتی ہے کہ کاش کسی طرح میں ان کاکوئی کھوج لگاسکوں ، کسی طرح ان کے بارے میں کچھ جان سکوں کہ وہ کون ہیں اورکہاں ہیں ؟ان کی محبت اسے پریشان کئے رکھتی ہے ،اوراس کے ساتھ ہی اس کے دل میں ان کے خلاف نفرت کے جذبات بھی پروان چڑھنے لگتے ہیں کہ انہوں نے مجھیکیوں چھوڑا؟ کیاماں باپ ایسے ہواکرتے ہیں کہ اپنی ہی اولادکوکسی دوسرے کی جھولی میں ڈال دیں یازمانے کے رحم وکرم پرچھوڑدیں ؟
لہٰذابیک وقت اس کے دل میں اپنے حقیقی والدین کیلئے محبت اورتڑپ نیزان کے خلاف نفرت وعداوت کے جذبات کی یہ جنگ اس کے دل ودماغ میں جاری رہتی ہے ظاہر ہے کہ اس جنگ اوراس کشمکش سے کسی اورپرتوکوئی اثرنہیں پڑتا، البتہ خودوہی بے چارہ بس سلگتارہتاہے، نفسیاتی صدموں کے شکنجے میں پھنستاچلاجاتاہے،اوریوں اس کی تمام زندگی اس کیلئے ایک بہت بڑی الجھن بن کررہ جاتی ہے۔
یہی وہ اسباب ہیں جن کی بناء پردینِ اسلام میں کسی کو’’مُتبنّیٰ‘‘یعنی منہ بولابیٹا (یابیٹی) بنانے کی ممانعت ہے۔
رسول اللہ کی سیرت
رسول اللہ کی عظیم شخصیت بلنداخلاق اورپاکیزہ سیرت وکردارسے انتہائی متأثرہونے کی وجہ سے اس نوعمر(زیدبن حارثہ)نے اپنے والدین کے ساتھ جانے کی بجائے آپؐ کے ساتھ رہناپسندکیا،اُ سوقت زیدکے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ جس شخصیت کوانہوں نے اپنے’’ آقا‘‘کے طورپرپسندکیاہے اوراپنے ماں باپ اپنا خاندان اپنے بھائی بہن سبھی پرجس شخصیت کی صحبت ومعیت کوترجیح دی ہے وہ تودراصل صرف زیدکے آقاہی نہیں بلکہ انہیں تواللہ نے تمام جہان والوں کا آقا بنایا تھا،اوراللہ کی طرف سے تمام دنیائے انسانیت کی رہبری ورہنمائی کیلئے انہیں منتخب کیاگیاتھا۔
زیدکے تصورمیں بھی یہ بات نہیں تھی کہ عنقریب آسمان سے ایک نیا اور آخری دین نازل ہوگا، اورپھراس دین کی بنیاد پر اس زمین میں ایک نئی دنیا وجود میں آئیگی ،ایک نیامعاشرہ اور نظام قائم ہوگا،اورتب اس نئی دنیامیں نئے معاشرے میں وہ گنے چنے چندافرادجنہیں بڑی اہمیت اوربنیادی حیثیت حاصل ہوگی ان میں زید بھی ہوں گے، بلکہ سرِفہرست ہوں گے،اورانہیں اس نئی عمارت میں سنگِ بنیادکی حیثیت حاصل ہوگی، کیونکہ اس واقعے کے بعدجب محض چندسال ہی گذرے تھے کہ اللہ عزوجل کی طرف سے تمام دنیائے انسانیت کی رہبری ورہنمائی کی خاطررسول اللہ کو آخری نبی بناکربھیجاگیا، اور تب آپؐ کے گھرانے کے ایک فردکی حیثیت سے زیدنے سب سے پہلے دینِ اسلام قبول کیا۔
جس طرح زیدبن حارثہ ؓ نے رسول اللہ کی صحبت ومعیت میں رہنے کی خاطر اپنا گھربار چھوڑا،اپنے ماں باپ کوچھوڑا،نیزجس طرح ان کے دل کی گہرائیوں میں رسول اللہ کیلئے محبت وعقیدت اورعزت واحترام کے جذبات خوب راسخ ہوچکے تھے بعینہٖ اسی طرح رسول اللہ بھی ہمیشہ زیدپربہت زیادہ شفقت وعنایت فرماتے رہے، آپؐ نے زیدکوہمیشہ اپنے گھر کا فرد سمجھا،گھرکے دیگرافرادکے ساتھ آپؐ کاجورویہ وسلوک تھا وہی رویہ زیدکے ساتھ بھی تھا نیز گھرکے کسی بھی فردکوجوحیثیت اور اہمیت حاصل تھی وہی زیدکوبھی حاصل تھی۔
حضرت زیدؓ اگرکبھی کسی سفرکے موقع پر گھر سے دور جاتے تورسول اللہ اداس ہوجاتے،زیدؓ واپس آتے تو آپؐ بھی مسرورومطمئن ہوجاتے، خوب والہانہ انداز میں مسرت کااظہارفرماتے،اوراس طرح گرمجوشی کے ساتھ زیدکااستقبال فرماتے کہ یہ سعادت کسی اورکونصیب نہیں ہوسکی۔اسی کیفیت میں مکہ میں وقت گذرتارہا
نبوت کے تیرہویں سال کے آخرمیں جب ہجرتِ مدینہ کاحکم نازل ہواتب اس حکم کی تعمیل کے طور پر رسول اللہ ودیگرتمام مسلمان رفتہ رفتہ مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کرگئے،اورپھرچندہی روزبعدجب زیدبن حارثہ ؓ مدینہ پہنچے ، تب فرطِ مسرت کی وجہ سے رسول اللہ کی جوکیفیت تھی اس کی منظرکشی کرتے ہوئے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں :
’’زیدبن حارثہ جب مدینہ پہنچے اُس وقت رسول اللہ میرے گھرمیں تشریف فرماتھے، اوراس وقت آپؐ نے محض ایک تہبندباندھ رکھی تھی، زیدنے جب گھرکادروازہ کھٹکھٹایا تو آپؐ اسی کیفیت میں اپنی تہبندتھامے ہوئے دروازے کی طرف لپکے،زیدکوگلے سے لگایا اور بوسہ بھی دیا،میں نے آپؐ کو اس کیفیت میں دروازے پرجاتے ہوئے نہ کبھی اس سے قبل دیکھا تھا اور نہ کبھی اس کے بعددیکھا‘‘
ہجرت کے بعداب یہاں مدینہ میں وقت کاسفرجاری رہا رسول اللہ کیلئے زیدبن حارثہ ؓ گھرکے فردکی مانندتوپہلے ہی تھے اب مزیدہردم اورہرلمحہ یہ تعلق مضبوط سے مضبوط ترہوتاچلاگیا
مدنی زندگی میں مخالفین ومشرکین کی طرف سے مسلمانوں کومسلسل جارحیت کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں متعدد غزوات کی نوبت آئی،ایسے میں ہرغزوے کے موقع پرزیدؓ رسول اللہ کی زیرِقیادت شریک رہے بلکہ پیش پیش رہے ،اوربے مثال شجاعت وجرأت کا خوب مظاہرہ کرتے رہے۔