صلح حدبیہ
آخر ۸ھمیں ایک بہت بڑی آزمائش سامنے آکھڑی ہوئی ،ہوایہ کہ ۶ھمیں مسلمانوں اورمشرکینِ مکہ کے مابین ’’صلحِ ‘‘کے نام سے جومشہورتاریخی معاہدہ طے پایاتھا، اس کے نتیجے میں رسول اللہ اورتمام مسلمانوں کومشرکینِ مکہ کی جانب سے جب قدرے بے فکری نصیب ہوئی تھی ،تب اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ نے دعوتِ اسلام کے اس مبارک سلسلے کومزیدوسعت دینے کافیصلہ فرمایاتھا،اسی سلسلے میں ان دنوں مختلف فرمانرواؤں حکمرانوں امراء وسلاطین اوروالیانِ ریاست کوخطوط ارسال کئے گئے تھے جن میں انہیں دینِ برحق قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔
حارث بن عمیرالأزدی
اسی سلسلے میں رسول اللہ کے قاصدکی حیثیت سے حارث بن عمیرالأزدی ؓ ’’بُصریٰ‘‘کے فرمانرواکے نام تحریرفرمودہ آپؐ کانامۂ مبارک لئے ہوئے جب مدینہ سے بُصریٰ کی جانب محوِسفرتھے تب راستے میں ملکِ شام کی حدودمیں ’’بلقاء‘‘نامی ریاست (جوکہ سلطنتِ روم کے تابع تھی) کے فرمانروا شرحبیل الغسانی نے انہیں روکا،تشددکانشانہ بنایا،اورپھرانتہائی سنگدلی وسفاکی کامظاہرہ کرتے ہوئے ان کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے جکڑنے کے بعدانہیں قتل کرڈالا
رسول اللہ کوجب اس افسوسناک واقعے کی اطلاع ملی تو آپؐ انتہائی رنجیدہ ہوگئے، کیونکہ کسی نہتے اوربے قصورانسان کو بالخصوص غیرملکی قاصداورسفارتی نمائندے کوناحق یوں قتل کرڈالنا یقینابہت ہی بڑاجرم تھا، مزیدیہ کہ یہ سفارتی آداب کی سنگین خلاف ورزی بھی تھی۔
حضرت زیدبن حارثہ ؓ کی زیرِقیادت
رسول اللہ نے یہ انتہائی افسوسناک بلکہ المناک واقعہ پیش آنے پریہ فیصلہ فرمایاکہ اب رومیوں کے خلاف تادیبی کارروائی ضروری ہوچکی ہے،چنانچہ تین ہزارافرادپرمشتمل ایک لشکرسلطنتِ روم کی جانب روانہ کیاگیا، اس موقع پر آپؐ نے اس لشکرکاسپہ سالار حضرت زید بن حارثہ ؓ کومقررفرمایا،اوریہ وصیت فرمائی کہ زیدکے بعدسپہ سالاری کے فرائض جعفربن ابی طالب انجام دیں گے،اوران کے بعدعبداللہ بن رواحہ (جوکہ انصارِ مدینہ میں سے تھے)انجام دیں گے،اوران کے بعدتم باہم مشاورت کے بعدکسی کواپناسپہ سالارمنتخب کرلینا(گویارسول اللہ کواس موقع پرمن جانب اللہ خبردے دی گئی تھی کہ اس موقع پریہ تینوں حضرات یکے بعددیگرے شہیدہوجائیں گے)
اورپھریہ لشکرحضرت زیدبن حارثہ ؓ کی زیرِقیادت مدینہ منورہ سے سوئے منزل رواں دواں ہوگیا
طویل مسافت طے کرنے کے بعدجب یہ مبارک لشکرجزیرۃ العرب اورسلطنتِ روم کے مابین سرحدی علاقے میں پہنچاتووہاں ’’مُؤتہ‘‘نامی مقام پر(جوکہ رفتہ رفتہ تقسیم درتقسیم کے سلسلوں کے بعدموجودہ ’’اُردن‘‘میں واقع ہے)جوصورتِ حال جونظر آئی وہ نہایت خلافِ توقع اورانتہائی پریشان کُن تھی،کیونکہ وہاں منظرکچھ ایساتھاکہ سامنے رومیوں کی ایک لاکھ فوج مقابلے کیلئے تیارتھی،مزیدیہ کہ اس سرحدی علاقے میں آبادبہت سے عرب قبائل (غسان وغیرہ) جودینی معاشی وسیاسی طورپرسلطنتِ روم ہی کے تابع تھے انکے ایک لاکھ جنگجوبھی یہاں رومی فوج کے شانہ بشانہ موجودتھے یعنی صورتِ حال یہ بنی کہ ایک طرف مسلمان محض تین ہزار جبکہ دوسری جانب ان کے بالمقابل دولاکھ مسلح اور چاق وچوبندجنگجؤوں پرمشتمل بہت بڑالشکرِجرار مسلمان اپنے وطن سے دورپردیس میں جبکہ دشمن اپنی سرزمین پر مسلمانوں کواشیائے خوردونوش ودیگرضروری اسباب کی شدیدقلت کاسامنا جبکہ دشمن کے پاس ہرقسم کے اسباب کی خوب فراوانی۔
اس خلافِ توقع صورتِ حال کی وجہ سے مسلمان کچھ ترددکاشکارہوگئے ، دوروزتک باہم مشاورت کاسلسلہ چلتارہا، آخرباہمی مشاورت کے اس سلسلے کے بعدیہ طے پایاکہ ہمارا مقصد تومحض یافتح ہے یاشہادت لہٰذاپیش قدمی کی جائے۔
شہا دت زید بن حا رثہ
چنانچہ پیش قدمی شروع ہوئی فریقین میں کوئی توازن ہی نہیں تھا ایک طرف فقط تین ہزارمسلمان ،اوروہ بھی گھرسے بے گھر،وطن سے بہت دور،یہاں دشمن کی سرزمین پر جبکہ دوسری جانب دولاکھ جنگجو خوداپنی ہی سرزمین پراوراپنے ہی علاقے میں مگراس کے باوجود دونوں جانب سے نہایت زورداریلغارہوئی زیدبن حارثہ ؓ سپہ سالارکی حیثیت سے پیش پیش تھے،رسول اللہ نے خوداپنے دستِ مبارک سے زید کو نامِ خدا کا جو جھنڈا تھمایا تھا اس مبارک جھنڈے کو بلند رکھنے کیلئے اوراس کی حرمت وعظمت کو ہر قیمت پرقائم ودائم رکھنے کیلئے اُس روززیدؓ نے شجاعت وبہادری کے ایسے جوہردکھائے کہ شاید چشمِ فلک نے اس سے قبل کبھی ایسے مناظر نہیں دیکھے ہوں گے رسول اللہ کی طرف سے عنایت فرمودہ اس مبارک جھنڈے کوبلندرکھنے کی خاطروہ آخری دم تک نہایت ثابت قدمی کے ساتھ میدان میں ڈٹے رہے،بیشمارتلواروں تیروں اورنیزوں نے ان کے تمام جسم کوچھلنی کرڈالا،اورپھر آخران بیشمار زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ’’مُؤتہ‘‘کے میدان میں وطن سے بہت دور اپنے گھرسے بہت دور اپنے شہرمدینہ سے بہت دور اپنے پیاروں سے بہت دور اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطر رسول اللہ کی طرف سے عنایت فرمودہ اس مبارک جھنڈے کی حرمت وعظمت کو برقراررکھنے کی خاطر زیدؓ نے اپنی جان کانذرانہ پیش کیا اپنی جان قربان کردی مگراس مبارک جھنڈے کوکسی صورت سرنگوں نہیں ہونے دیا
یوں حضرت زیدبن حارثہ ؓ جنہیں رسول اللہ نے اپنے بچوں کی طرح پالا تھا، اپنے گھرکاایک فردبنایاتھا جن کے ساتھ آپؐ کابہت ہی گہرااورقریبی تعلق تھا
اوربہت ہی جذباتی قسم کالگاؤ تھا ٨ھ میں ’’مؤتہ‘‘کے میدان میں اپنے اللہ سے جاملے،جب ان کی عمر تینتالیس سال تھی۔
اُدھرمدینہ میں رسول اللہ جب تعزیت کی غرض سے زیدؓ کے گھرپہنچے ،ان کے اہلِ خانہ کو تسلی دی ،اورصبرکی تلقین کی ،اورپھرجب اُٹھ کروہاں سے واپس روانہ ہونے لگے توکیفیت یہ ہوئی کہ زیدؓ کی کمسن بیٹی باربار آپؐ کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹ جاتی اورخوب بلک بلک کرروتی تب آپؐ کی آنکھوں سے بھی زاروقطار آنسوبہنے لگے اوریوں زیدؓ کے گھر والوں کوصبر کی تلقین کرتے کرتے خود آپؐ پربھی گریہ طاری ہوگیا