You are currently viewing رسول اللہ کے جلیل القدر صحابی حضرت زبیر بن العوام

رسول اللہ کے جلیل القدر صحابی حضرت زبیر بن العوام

رسول اللہ کے جلیل القدر صحابی حضرت زبیر بن العوام کاتعلق مکہ میں قبیلۂ قریش کے خاندان بنواسد سے تھا،ان کی والدہ صفیہ بنت عبدالمطلب رسول اللہ کی پھوپھی تھیں ،یعنی آپ رسول اللہ کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔

نیزحضرت زبیر بن العوام حضرت ابوبکرصدیق کی صاحبزادی حضرت اسماء کے شوہرتھے۔

حضرت زبیر بن العوام کی ولادت مکہ شہرمیں ہوئی ،حضرت طلحہ بن عبیداللہ کے بیٹے محمد اکثریوں کہاکرتے تھے کہ میرے والدطلحہ نیز مطمئنزبیر بن العوام علی بن ابی طالب اورسعدبن ابی وقاص کی ولادت مکہ شہرمیں ایک ہی سال ہوئی تھی یعنی ولادت کے لحاظ سے یہ تمام حضرات ہم عمرتھے ۔

حضرت زبیر بن العوام السابقین الأولین یعنی بھلائی میں سبھی لوگوں پرسبقت لے جانے والوں میں سے تھے،یعنی وہ عظیم ترین افرادجنہوں نے بالکل ابتدائی دورمیں دینِ اسلام قبول کیا کہ جب مسلمانوں کیلئے بہت ہی مظلومیت اوربے بسی وبے چارگی کازمانہ چل رہاتھا یہی وجہ ہے کہ ان حضرات کابڑامقام ومرتبہ ہے ،ان کیلئے عظیم خوشخبریاں ہیں اورانہیں قر آن کریم میں السابقین الأولین کے نام سے یادکیاگیاہے۔

مزیدیہ کہ حضرت زبیر بن العوام عشرہ مبشرہ یعنی ان دس خوش نصیب ترین افرادمیں سے تھے جنہیں اس دنیاکی زندگی میں ہی رسول اللہ نے جنت کی خوشخبری سے شادکام فرمایاتھا۔ ظہورِاسلام سے قبل ہی حضرت زبیر بن العوام اورحضرت ابوبکرصدیق کے مابین خاص قریبی تعلقات اورگہرے مراسم تھے ،لہٰذااسی دوستی کی وجہ سے حضرت ابوبکر نے دینِ اسلام کے بالکل ابتدائی دنوں میں انہیں رسول اللہ کی بعثت کے بارے میں آگاہ کیا ،اور انہیں دینِ برحق قبول کرنے کی دعوت دی ،جس کے نتیجے میں حضرت زبیر اس دعوتِ حق پرلبیک کہتے ہوئے مشرف باسلام ہوگئے۔

 حضرت زبیر بن العوام کویہ شرف حاصل تھا کہ انہوں نے دینِ اسلام کی رفعت وسربلندی نیز پیغمبرِ اسلام کی حمایت و نصرت کی خاطر سب سے پہلے اپنی تلوار بلند کی، مکہ شہر میں رسول اللہ کی بعثت مبارکہ کے بعد بالکل ابتدائی دن جب چل رہے تھے، تب ایک روز یہ صورتِ حال پیش آئی کہ مشرکینِ مکہ میں سے کسی نے یہ افواہ اُڑادی کہ نعوذباللہ محمد قتل کردئیے گئے ہیں اُس وقت زبیربا لکل ہی نوعمر تھے،لیکن اس کے باوجود جب انہوں نے یہ خبر سنی تو ان سے رہا نہ گیا اور اپنی کم سنی کے باوجود ننگی تلوار لہراتے ہوئے رسول اللہ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے، آخر ایک جگہ جب آپ سے ملاقات ہوئی اور آپ کو زندہ سلامت اور بخیر و عافیت دیکھا تب یہ مطمئن ہوگئے۔ البتہ رسول اللہ نے جب ان کی یہ کیفیت دیکھی ہاتھ میں برہنہ تلوار لہراتے ہوئے تو آپ نے وجہ دریافت فرمائی تب نوعمر زبیر نے وجہ بیان کرتے ہوئے اُس افواہ کے بارے میں بتایا نیز آپ کی خیریت وعافیت اور سلامتی سے متعلق اپنی فکر اور تشویش سے آگاہ کیا جس پر آپ نے انہیں دعائے خیر دی۔

دینِ اسلام کے اسی ابتدائی دور میں جب مشرکینِ مکہ کی طرف سے ایذاء رسانیوں کا سلسلہ عروج پر تھا تب نبوت کے پانچویں سال رسول اللہ کے مشورے پر بہت سے مسلمان مکہ سے ملکِ حبشہ کی جانب ہجرت کرگئے تھے،انہی مہاجرینِ حبشہ میں حضرت زبیر بن العوام بھی شامل تھے اور پھر نبوت کے تیرہویں سال جب ہجرتِ مدینہ کاحکم نازل ہوا، تب دیگر تمام مسلمانوں کی طرح حضرت زبیر بن العوام بھی مدینہ منورہ آپہنچے  ہجرتِ مدینہ کے موقع پررسول اللہ و دیگر مسلمانوں کی مکہ سے مدینہ تشریف آوری کے فوری بعد ایک تکلیف دہ صورتِ حال یہ پیش آئی کہ کافی عرصے تک ان مہاجرین حضرات کے ہاں کسی بچے کی ولادت نہیں ہوئی مدینہ شہرمیں چونکہ مقامی عرب آبادی کے علاوہ یہودی بھی بڑی تعدادمیں آبادتھے ،جوکہ صدیوں سے نسل درنسل وہیں مستقل طور پر مقیم تھے، اور جو کہ رسول اللہ نیز آپ کے ساتھی مسلمانوں کی مدینہ آمد پر سخت نالاں تھے اور اتفاق یہ کہ جادو ٹونے میں انہیں بڑی مہارت حاصل تھی ، یہی ان کا پسندیدہ ترین مشغلہ تھا، اوراس حوالے سے انہیں بڑی شہرت بھی حاصل تھی چنانچہ جب کافی عرصہ اسی کیفیت میں گذر گیا کہ مکہ سے ہجرت کرکے آنے والے کسی مسلمان گھرانے میں کسی بچے کی ولادت نہیں ہوئی تب ان یہودِمدینہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ افواہ پھیلادی کہ ہم نے ان مسلمانوں پرجادو کردیا ہے ، اور یوں ہم نے جادو کے ذریعے ان کی مستقل نسل بندی کردی ہے،لہٰذا اب آئندہ ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوگی،اور یوں رفتہ رفتہ ان کا خود بخود خاتمہ ہوجائے گا ۔ مسلمان چونکہ راسخ العقیدہ تھے لہٰذا اس افواہ پرانہوں نے کا ن نہیں دھرے، لیکن بہرحال وہ بھی انسان ہی تھے، طبعی طور پر انہیں بھی اولاد کی خواہش تھی لہٰذا جوں جوں وقت گذرتا گیا،یہود کی طرف سے یہ افواہ تقویت پکڑتی گئی ،اور مسلمانوں کیلئے یہ چیز تشویش کاباعث بنتی چلی گئی۔ آخر کافی عرصہ گذر جانے کے بعد حضرت زبیر بن العوام اور ان کی اہلیہ محترمہ حضرت اسماء بنت ابی بکرالصدیق کو االلہ نے بیٹے سے نوازا،جس کانام عبداللہ رکھا گیا،چونکہ تمام مہاجرین حضرات کی مدینہ آمد کے بعد اور پھر یہ کہ عرصۂ دراز اور طویل انتظار اور بے چینی کے بعد مزیدیہ کہ یہودیوں کی طرف سے مسلمانوں کی بذریعۂ جادو نسل بندی کی افواہ اُڑائے جانے کے بعد یہ پہلا نومولود تھا،لہٰذا اس کی ولادت رسول اللہ کیلئے اس بچے کے والدین کیلئے نیزتمام مسلمانوں کیلئے انتہائی مسرت و شادمانی کا سبب بنی،اس روز مسلمان دن بھرخوشی کا اظہار کرتے رہے ،ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے رہے،اور اس روز مدینہ کے گلی کوچے اللہ اکبرکی صداؤں سے گونجتے رہے ہجرتِ مدینہ کے بعدجلد ہی جب غزوات کی نوبت آئی تورسول اللہ کی حیاتِ طیبہ کے دوران جتنے بھی غزوات پیش آئے ، ہرغزوے کے موقع پرحضرت زبیر رسول اللہ کی زیرِِقیادت شریک رہے، بلکہ پیش پیش رہے،اورشجاعت و بہادری کے خوب جوہر دکھاتے رہے۔

Leave a Reply