تعارف
حضرت طلحہ بن عبیداللہ التیمی، رسول اللہ کے جلیل القدر صحابی تھے جن کا تعلق مکہ کے قبیلہ قریش کی شاخ بنوتیم سے تھا۔ آپ کی ولادت رسول اللہ کی ولادت باسعادت کے تقریباً پچیس سال بعد ہوئی۔ حضرت طلحہ ابتدائی دور میں اسلام قبول کرنے والے افراد میں سے تھے، جب مسلمانوں کے لیے حالات نہایت دشوار تھے۔ اسی وجہ سے قرآن میں انہیں “السابقین الأولین” کے نام سے یاد کیا گیا ہے، اور رسول اللہ نے انہیں “عشرہ مبشرہ” یعنی اُن دس خوش نصیب ترین افراد میں شمار کیا جنہیں دنیا میں ہی جنت کی خوشخبری دی گئی۔
ذریعہ معاش
حضرت طلحہ بن عبیداللہ کا ذریعہ معاش تجارت تھا اور وہ مکہ سے شام تک تجارتی قافلوں کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ ایک بار شام کے شہر بصرہ میں، حضرت طلحہ ایک بازار میں موجود تھے جہاں ایک ضعیف راہب نے مکہ کے کسی تاجر کے بارے میں دریافت کیا۔ حضرت طلحہ نے جب راہب کو بتایا کہ وہ مکہ سے ہیں، تو راہب نے ان سے پوچھا کہ کیا مکہ میں “احمد” کا ظہور ہو چکا ہے۔ جب حضرت طلحہ نے راہب سے پوچھا کہ احمد کون ہیں، تو اس نے جواب دیا کہ وہ عبداللہ بن عبدالمطلب کے بیٹے ہیں اور ان کا ظہور طے ہے۔ راہب نے مزید کہا کہ وہ آخری نبی ہیں اور مکہ سے ہجرت کرکے ایک ایسی سرزمین کی طرف جائیں گے جہاں کھجوروں کے باغات ہوں گے۔
قبول اسلام
اس بات نے حضرت طلحہ کے دل پر گہرا اثر چھوڑا اور وہ فوراً اپنے ساتھیوں کی واپسی کا انتظار کیے بغیر شام سے مکہ روانہ ہوگئے۔ جب وہ مکہ پہنچے اور اپنے گھر والوں سے پوچھا کہ کیا ان کی غیر موجودگی میں مکہ میں کوئی خاص واقعہ پیش آیا ہے، تو انہیں بتایا گیا کہ محمد بن عبداللہ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور حضرت ابوبکر ان کے ہمنوا بن گئے ہیں۔ حضرت طلحہ کو رسول اللہ کی دیانت داری اور حضرت ابوبکر کے حسن اخلاق کا پہلے ہی علم تھا، اس لیے وہ فوراً حضرت ابوبکر کے پاس پہنچے اور ان سے مزید معلومات حاصل کیں۔
حضرت ابوبکر نے انہیں رسول اللہ کی نبوت کے بارے میں آگاہ کیا، اور حضرت طلحہ نے انہیں وہ سب کچھ بتایا جو انہوں نے راہب سے سنا تھا۔ حضرت ابوبکر نے حضرت طلحہ کو رسول اللہ کی خدمت میں لے جا کر آپؐ سے ملوایا، جہاں رسول اللہ نے انہیں قرآن کی چند آیات سنائیں اور دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ حضرت طلحہ نے فوراً اسلام قبول کرلیا اور کلمہ شہادت پڑھا۔
سفر ہجرت
اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت طلحہ کو مشرکین مکہ کی طرف سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انہوں نے ہر آزمائش کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے۔ تیرہ سالہ مکی دور کے بعد جب ہجرت کا حکم نازل ہوا، تو حضرت طلحہ نے بھی دیگر مسلمانوں کے ساتھ مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کی۔ مدینہ پہنچنے پر، رسول اللہ نے حضرت طلحہ کا بھائی چارہ حضرت کعب بن مالک سے کروایا۔
ہجرت مدینہ کے بعد جب مشرکین مکہ نے مسلمانوں پر جنگیں مسلط کیں، تو حضرت طلحہ ہر معرکے میں رسول اللہ کے ساتھ شامل رہے۔ غزوہ بدر میں، حضرت طلحہ لشکر قریش کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کی ذمہ داری پر تھے، جس کی وجہ سے وہ اس معرکے میں شریک نہ ہو سکے۔ تاہم، رسول اللہ نے انہیں اجر و ثواب کی خوشخبری سے نوازا۔
جنگو ں میں حصہ
غزوہ احد میں حضرت طلحہ نے اپنی بے مثال بہادری کا مظاہرہ کیا۔ اس معرکے میں ابتدائی طور پر مسلمان فتح کے قریب پہنچ چکے تھے، لیکن بعد میں ایک غلطی کی وجہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس موقع پر جب لشکر میں بدنظمی پھیل گئی اور مسلمان اپنی صفوں میں رابطہ برقرار نہ رکھ سکے، حضرت طلحہ ان چند صحابہ میں شامل تھے جو رسول اللہ کے گرد ڈٹے رہے۔ حضرت طلحہ نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر رسول اللہ کو دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں کیں۔
ایک موقع پر جب دشمنوں کی جانب سے تیروں کی بوچھاڑ ہوئی، حضرت طلحہ نے اپنے بازوؤں سے تیروں کو روکا، جس کے نتیجے میں ان کا ایک بازو ہمیشہ کے لیے مفلوج ہوگیا۔ اسی معرکے کے دوران، جب رسول اللہ زخمی ہوئے اور آپؐ کو ایک محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی ضرورت پیش آئی، تو حضرت طلحہ نے آپؐ کو اپنی پشت پر اٹھا کر بلندی پر موجود ایک چٹان تک پہنچایا۔ اس وقت وہ خود بھی شدید زخمی اور نڈھال تھے، مگر انہوں نے رسول اللہ کو محفوظ مقام تک پہنچایا۔ اس عظیم قربانی پر رسول اللہ نے فرمایا، “طلحہ کے لیے جنت واجب ہو چکی ہے۔”
غزوہ احد میں دشمن کا مقا بلہ
حضرت طلحہ کی اس بہادری پر حضرت ابوبکر صدیق فرمایا کرتے تھے کہ غزوہ احد کا دن دراصل حضرت طلحہ کا دن تھا۔ حضرت طلحہ کا شمار اُن صحابہ میں ہوتا ہے جنہوں نے رسول اللہ کی حیات طیبہ کے دوران ہر مشکل وقت میں آپؐ کا ساتھ دیا۔ آپؐ کے ساتھ ان کی محبت اور وفاداری کا سلسلہ مسلسل جاری رہا اور رسول اللہ ان سے ہمیشہ خوش اور مطمئن رہے۔
رسول اللہ کے بعد خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق کے دور میں بھی حضرت طلحہ بن عبیداللہ کا مقام و مرتبہ برقرار رہا۔ انہیں حضرت ابوبکر کے مشیرِ خاص اور قریبی دوست کے طور پر دیکھا گیا۔ حضرت طلحہ کے اسلام قبول کرنے کا سبب بھی حضرت ابوبکر صدیق کی دعوت ہی تھی۔ حضرت عمر بن خطاب کے دورِ خلافت میں بھی حضرت طلحہ کی قدر و منزلت برقرار رہی۔ حضرت عمرؓ کی شہادت کے وقت انہوں نے چھ افراد کو مشاورت کے بعد خلیفہ چننے کا حکم دیا، جن میں حضرت طلحہ بھی شامل تھے۔
حضرت طلحہ بن عبیداللہ اپنی سخاوت و فیاضی کے لیے مشہور تھے۔ تجارت کی وجہ سے مالدار ہونے کے باوجود وہ ہمیشہ دین کی سربلندی اور فقراء و مساکین کی مدد میں مشغول رہتے۔ رسول اللہ نے انہیں “طلحۃ الخیر” اور “طلحہ الفیاض” کے لقب سے یاد فرمایا۔ ایک بار یمن سے سات لاکھ درہم حاصل کرنے کے بعد حضرت طلحہ نے اپنی اہلیہ کے مشورے پر وہ تمام رقم فقراء میں تقسیم کر دی
اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں صحابۂ کرام کی معیت نصیب فرمائے