You are currently viewing حضرت سلیمان  کا دربار اور ہدہد

حضرت سلیمان  کا دربار اور ہدہد

سبا ایک ملک کا نام تھا شاید قدیم زمانے میں سبا یمن کا نام ہو یہ کہنا مشکل ہے ملک سبا میں ایک عورت حکومت کرتی تھی کہا جاتا

ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان  کا دربار لگا ہوا تھا ، اس دربار میں ہر قسم کے چرند پرند موجود تھے لیکن ان جانوروں کے درمیان ہد ہد موجود نہیں تھا حضرت سلیمان  کو ہدہد کے حاضر نہ ہونے پر کچھ پریشانی ہوئی وہ چاروں طرف نظر دوڑا رہے تھے اور ہد ہد کو تلاش کر رہے تھے۔ اچانک ہد ہد حاضر ہو گیا حضرت سلیمان  نے دیر تک غیر حاضر رہنے کی وجہ دریافت کی ہد ہد نے بتایا کہ ملک سبا میں ایک عورت حکومت کرتی ہے وہ اللہ کے دین پر یقین نہیں رکھتی وہ آتش پرست ہے اس کے پاس کثیر فوج ہے وہ عالی شان محل میں رہتی ہے خدمت کے لئے بے شمار غلام ہر وقت حاضر رہتے ہیں۔ حضرت سلیمان  نے ہدہد کی باتیں غور سے سنیں اور کہا کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو سچ ہے یا جھوٹ چنانچہ آپ نے ملکہ سبا کے نام ایک رقعہ لکھا آپ نے سب سے پہلے بسم اللہ لکھا اور یوں تحریر کیا:

یہ خط سلیمان کی طرف سے ہے۔ میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو سب سے بڑا مہربان اور بہت بڑا رحم والا ہے تم اپنی سلطنت پر غرور اور سرکشی نہ کرو، پہلے تم اللہ کی فرمانبرداری کرنے کا عہد کرو پھر میرے پاس چلی آؤ۔“آپ نے خط ہدہد کے حوالے کیا اور بولے کہ یہ خط اس کے سامنے ڈال دو ہد ہد نے ایسا ہی کیا ملکہ نے خط اٹھا کر پڑھا اور درباریوں سے کہا اور پڑھ کر سنایا اور ان سے رائے طلب کی کہ اب کیا کرنا چاہئے دربار میں حاضر تمام لوگوں نے ایک رائے ہو کر کہا، ہم طاقتور ہیں اس لئے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم سلیمان کا مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں ملکہ سبا نے کہا یہ تو ٹھیک ہے اس میں کوئی شک نہیں ہم کمزور تو نہیں ہیں لیکن ہمیں سوجھ بوجھ سے کام لینا چاہئے ان سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لئے میں تحفے تحائف بھیجنا چاہتی ہوں اگر انہوں نے ہمارا تحفہ قبول نہ کیا تو میں سمجھوں گی کہ وہ پیغمبر ہیں، پیغمبروں کو مال و دولت کی ہوس نہیں ہوتی ، اگر انہوں نے تحفہ قبول کیا تو میں سمجھوں گی کہ وہ صرف بادشاہ ہیں بادشاہوں کو ملک گیری کی ہوس ہوتی ہے میں اس بات سے خوف زدہ ہوں کہ بادشاہ جس ملک میں داخل ہوتے ہیں وہاں تباہی مچا دیتے ہیں ہر چیز کو تباہ برباد کر دیتے ہیں۔ ملکہ نے یہی سوچ کر تحفے تحائف بھیجے تحفوں کا سامان لے کر خادم حضرت سلیمان  کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ میرا مقصد یہ نہیں جو ملکہ نے سمجھا ہے میرے پاس دولت و حشمت کی کمی نہیں ہے خدا نے مجھے بہت کچھ دے رکھا ہے میں چاہتا ہوں کہ ملکہ میرے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میرے پاس چلی آئے اگر اس نے میرے پاس آنے سے انکار کیا تو میں لشکر لے کر پہنچ جاؤں گا ملکہ کو رسوائی اٹھانی پڑے گی خادم نے حضرت سلیمان  کا پیغام ملکہ تک پہنچا دیا۔ ملکہ نے روانگی کے لئے تیاری شروع کردی۔ آپ کو ملکہ کی روانگی کی خبر مل چکی تو آپ نے جنوں سے پوچھا کہ ملکہ کو یہاں کون لاسکتا ہے ان میں سے ایک جن نے کہا کہ میں پلک جھپکتے ہی ملکہ کو حاضر کر سکتا ہوں ، آپ نے اجازت دی تو ایک جن تخت سمیت ملکہ سبا کولے آیا ، حضرت سلیمان  نے اللہ کا شکر ادا کیا اور حکم دیا کہ اس تخت کی شکل بدل دی جائے ، جب ملکہ دربار میں پہنچی تو اس سے پوچھا کہ کیا تیرا تخت بھی ایسا ہی ہے اس نے کہا کہ یہ تو وہی ہے۔ حضرت سلیمان  نے اپنے محل کو حیرت انگیز طریقے سے بڑی حکمت کے ساتھ تعمیر کیا محل کا فرش شیشے سے تیار کیا فرش کے نیچے پانی کی نہریں بہہ رہی تھیں ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے یہ فرش نہیں بلکہ پانی ہی پانی ہے جب ملکہ سبائل کے فرش پر پاؤں رکھنے ہی والی تھی کہ پیچھے ہٹ گئی اور اپنے پائنچے اوپر چڑھا لئے ایک خادم نے ملکہ کی حرکت دیکھ کر کہا کہ یہ پانی نظر آ رہا ہے لیکن پانی نہیں ہے بلکہ فرش ہے پائینچے اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے ملکہ یہ عجوبہ دیکھ کر دنگ رہ گئی اور کہنے لگی۔ اے پروردگار میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے میں سلیمان کی بات مانتی ہوں اللہ ہی تمام کائنات کا رب ہے۔“

ملکہ سبا حضرت سلیمان پر ایمان لے آئی اور آپ سے نکاح کر لیا۔ ایک مرتبہ حضرت سلیمان  اپنے بھاری لشکر کے ساتھ راستے سے گزر رہے تھے اس راستے پر چیونٹیاں چل رہی تھیں۔ حضرت سلیمان کی سواری دیکھ کر چیونٹیوں کے سردار نے چیونٹیوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ حضرت سلیمان  اپنے لشکر کے ساتھ گزر رہے ہیں ایسا نہ ہو کہ تم سب حضرت سلیمان  اور ان کے مصاحبوں کے قدموں کے نیچے آ کر روندے جاؤ تم سب اپنی حفاظت کے لئے بلوں کے اندر گھس جاؤ۔ چیونٹیوں کی یہ بات سن کر حضرت سلیمان  مسکرائے اور خدا کا شکر ادا کیا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان  عجیب و غریب حالت میں وفات پاگئے آپ  ایک مقام پر عصا ٹیک کر کھڑے رہے اور اسی حالت میں آپ کی روح پرواز کر گئی لیکن آپ گرے نہیں، آپ کی وفات سے سب بے خبر تھے جب عصا کو دیمک چاٹ گئی تو آپ گر پڑے اسی وقت جنوں چرند اور پرند کو آپ کی وفات کی خبر ہوئی۔

Leave a Reply