You are currently viewing بنیامین اورمصرکا دربا ر

بنیامین اورمصرکا دربا ر

جب بنیامین کے سامان سے شاہی پیالہ برآمد ہوا تو بھائیوں نے فوراً کہا : ہم تو چوری کو بہت ہی بری حرکت سمجھتے ہیں۔ البتہ بنیامین کی چوری پر تعجب نہیں کیونکہ ان سے پہلے ان کے بھائی یوسف نے بھی چوری کی تھی ۔ یہ الزام سن کر آپ نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دل میں کہا کہ تم جس چوری کا مجھ پر الزام لگا رہے ہو اسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

 جب چوری کے مقدمہ میں بنیامین کی گرفتاری کا فیصلہ ہو گیا تو بھائیوں کو فورا خیال آیا کہ اب ہم اپنے والد کو کیا منہ دکھائیں گے، ہم اپنے والد سے پختہ عہد کر کے آئے تھے کہ بنیامین کو ضرور ساتھ لائیں گے مگر یہ کہ ہم پر کوئی آفت آجائے ۔ انہوں نے حضرت یوسف سے درخواست کی کہ ان کے والد بہت ہی بوڑھے ہیں ، ان سے بہت محبت کرتے ہیں اور ان کی جدائی برداشت نہیں کر سکتے اس لئے آپ ہم میں سے جسے چاہیں ان کے بدلے اپنے پاس رکھ لیں اور انہیں چھوڑ دیں ۔ حضرت یوسف   نے فرمایا کہ ان کی گرفتاری تمہارے فیصلہ کے مطابق ہوئی ہے۔ اب اگر میں اصل مجرم کو چھوڑ کر کسی بے گناہ کو گرفتار کرلوں تو یہ بہت بڑا ظلم ہوگا اور میں ایسے ظلم سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتا ہوں۔ بھائیوں کا اپنے والد محترم کو مطمئن کرنے کے لئے مشورہ : حضرت یوسف کا مدلل جواب سننے کے بعد آپ کے بھائی بنیامین کی رہائی سے ناامید ہو کر آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ ہم تو والد سے بنیامین کو واپس لانے کا عہد کر کے آئے تھے ۔ اب کیا کریں؟ بڑے بھائی نے کہا کہ ہم تو والد صاحب کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ ہم اس سے پہلے یوسف کو بھی والد کی نظروں سے اوجھل کر چکے ہیں۔ لہذا میں یہاں سے نہیں جاؤں گا جب تک کہ والد صاحب راضی نہ ہو جائیں یا اللہ تعالیٰ اس بات کا فیصلہ فرما دے یعنی یا تو میں بنیامین کو ساتھ لانے میں کامیاب ہو جاؤں یا مجھے موت آجائے ۔ تم والد محترم سے یہ واقعہ بیان کر دو۔ چنانچہ آپس میں مشورہ کرنے کے بعد بھائی مصر سے چل پڑے اور اپنے والد محترم کی خدمت میں جا کر صورت حال بیان کی اور کہا کہ جب ہم نے عہد کیا تھا تو ہمیں علم نہ تھا کہ بنیامین چوری کرے گا۔ ہم سے تو عزیز مصر نے چوری کی سزا پوچھی تھی جو ہم نے اپنے دین کے مطابق بتا دی۔ اگر آپ کو ہماری سچائی کا اعتبار نہیں ہے تو اس قافلہ والوں سے پوچھ لیں جس کے ساتھ ہم آئے ہیں۔ حضرت یوسف کے بھائیوں سے صورت حال کا پتہ چلنے پر حضرت یعقوب کا پرانا غم تازہ ہو گیا ۔ آپ نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وہی جملہ ( میں صبر کرتا ہوں ) کہا جو حضرت یوسف کا صدمہ ملنے پر کہا تھا اور اس واقعہ پر صبر کرنے کے ساتھ ساتھ یہ امید بھی ظاہر کی کہ عنقریب اللہ تعالیٰ ان سب (یوسف اور

بنیامین ) کو مجھ سے ملوائے گا۔ حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بڑی وسیع ہے لہذا تم اس کی رحمت سے ناامید نہ ہو اور حضرت یوسف   اور بنیامین کو تلاش کرو ۔ نا امیدی کفار کا شیوہ ہے۔ مسلمان کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتے

حضرت یعقوب کے کہنے پر تمام بھائی حضرت یوسف   اور بنیامین کو تلاش کرنے کے لئے مصر کی طرف چل پڑے ۔ بھائیوں نے مصر جا کر حضرت یوسف کے سامنے بنیامین کی رہائی اور مزید غلہ کے حصول کے لئے درخواست پیش کرتے ہوئے کہا : اے عزیز مصر ، ہم اور ہمارا خاندان مختلف تکالیف کا شکار ہے، ہمارے والد محترم بوڑھے اور ان کی بینائی بھی ختم ہو چکی ہے۔ لہٰذا آپ ہمارے ساتھ خصوصی تعاون فرماتے ہوئے ہمیں ہمارا بھائی واپس کر دیجئے اور غلہ بھی دیجئے ۔ حضرت یوسف کے بھائی تین مرتبہ آپ سے ملاقات کر چکے تھے لیکن وہ آپ کو پہچان نہیں پائے ۔ آپ نے ان سے سوال کیا : کیا تمہیں یاد ہے کہ تم نے یوسف اور ان کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ یہ سنتے ہی بھائی حضرت یوسف کو پہچان گئے اور شرمندہ ہو کر کہنے لگے : یقینا اللہ تعالی نے آپ کو چن لیا اور ہم پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ بے شک ہم غلطی پر تھے۔ آپ ہماری غلطی معاف کر دیجئے پھر آپ علینا)

نے انہیں ان کا جرم معاف فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کو کہا۔ حضرت یوسف کے بھائیوں نے جب آپ سے معافی کی درخواست کی تو آپ نے انہیں معاف کرتے ہوئے فرمایا : مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ، تم اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو۔ جب حضرت یوسف کے بھائی واپس جانے لگے تو آپ   نے فرمایا کہ میری یہ قمیص لے جاؤ اور والد صاحب کے چہرہ پر ڈال دو ، ان کی بینائی واپس آجائے گی پھر تمام اہل خانہ کو بھی یہاں لے آؤ تا کہ ہم سب مل کر زندگی گزاریں۔

حضرت یعقوب کو یوسف کی خوشبو اور بینائی کی بحالی : حضرت یوسف کے بھائی جیسے ہی آپ کی قمیص اور غلہ لے کر مصر سے روانہ ہوئے تو حضرت یعقوب کو حضرت یوسف کی قمیص کی خوشبو آنے لگی ۔ آپ نے اپنے اہل خانہ سے فرمایا : اگر تم مجھے بہکا ہوا نہ کہو تو میں تمہیں بتاؤں کہ مجھے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے۔ اہل خانہ نے آپ کی بات پر یقین نہیں کیا پھر جب خوشخبری دینے والے نے آکر حضرت یوسف کی قمیص آپ کے چہرہ مبارک پر ڈالی تو آپ کی آنکھیں روشن ہو گئیں۔ آپ نے فوراً فرمایا : کیا میں تم سے یہ نہیں کہا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے وہ باتیں معلوم ہیں جو تمہیں معلوم نہیں ہیں پھر آپ کے تمام بیٹوں نے عرض کیا کہ اے ابو جان، بے شک ہم سے غلطی ہو گئی ہے آپ ہمارے لئے اللہ تعالی سے استغفار کریں تو آپ نے ان کے لئے استغفار کی حامی بھر لی۔

حضرت یعقوب کے خاندان کی مصر آمد اور حضرت یوسف کا استقبال : جب بھائیوں نے حضرت یوسف کے پورے خاندان کو مصر میں لانے کا پیغام حضرت یعقوب کو پہنچایا تو آپ اپنے پورے خاندان کو لے کر مصر کی طرف روانہ ہو گئے ۔ جب حضرت یوسف کو اپنے خاندان کی آمد کی خبر ملی تو آپ ان کے استقبال کے لئے اپنے وزرا اور معززین کے ساتھ شاہی محل سے روانہ ہوئے اور اپنے خاندان کا پرتپاک استقبال کیا۔ حضرت یعقوب اپنے بیٹے کی محبت ، عزت اور عظمت کو دیکھ کر بڑے خوش ہوئے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔

جب حضرت یعقوب کا اپنے خاندان سمیت مصر پہنچ گئے تو حضرت یوسف نے انہیں خوب عزت دی اور اپنے والدین کو تخت شاہی پر اپنے پاس بٹھا کر فرمایا: مصر میں جہاں سے چاہو کھاؤ پیو، یہ تمہارے لئے بڑی پر امن جگہ ہے پھر آپ نے اپنے والدین ( سوتیلی والدہ اور سگے والد ) کو اپنے تخت پر بٹھایا آپ کے والدین اور 11 بھائی آپ کے سامنے تعظیماً سجدہ ( یہ سابقہ امتوں میں جائز تھا لیکن ہماری شریعت میں حرام ہے) میں گر گئے ۔ جیسے ہی حضرت یوسف نے ماں باپ اور 11 بھائیوں کو سجدے کی حالت میں دیکھا تو فوراً کہا : اے ابا جان، یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے بچپن میں دیکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بہت بڑا انعام فرمایا کہ مجھے جیل سے رہائی نصیب فرمائی، میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان جو اختلاف تھا اس کو دور فرمایا اور آپ سب کو یہاں لے آیا جس پر میں اللہ رب العزت کا بہت زیادہ شکر گزار ہوں ۔کہ مجھے اتنے انعام و اکرام سے نوازتے ہوئے  اعلیٰ مقام عطا فرمایا میرے خاندان کو بھی مجھ سے ملوا دیا اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے آپ نے اللہ تعالیٰ کی خوب حمد و ثنا بیان فرمائی اور ساتھ ہی آخرت کی کامیابی کے لئے بھی دعا مانگی جو قرآن کریم میں ان الفاظ میں ہے :

رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ فَاطِرَ السَّمَوتِ وَالارْضِ أَنْتَ وَلِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَ الْحِقْنِي بِالصَّلِحِينَ

 میرے پروردگار، بلاشبہ آپ نے مجھے حکومت بھی عطا فرمائی اور خوابوں کی تعبیر بھی سکھائی، اے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے، آپ ہی دنیا و آخرت میں میرے سر پرست ہیں، لہذا اسلام پر میرا خاتمہ کیجئے اور مجھے نیک لوگوں میں شامل فرما دیجئے ۔ “ (یوسف 12 : آیت (101)

حضرت یوسف کی وفات : حضرت یوسف 110 سال کی عمر میں مصر میں ہی انتقال فرما گئے ۔ آپ نے اپنی وفات سے قبل اپنے بھائیوں کو یہ وصیت فرمائی تھی کہ میری میت کو میرے والد محترم کے قریب دفن کرنا ۔ چنانچہ حضرت یوسف کی وفات کے بعد آپ کی وصیت کے مطابق بھائیوں نے آپ کی میت کو کفن دے کر ایک تابوت میں رکھا اور حبرون میں حضرت یعقوب   کے قریب دفن کر دیا۔

Leave a Reply