سیرت النبی،طفیل بن عمر دوسی ؑکا قبو ل اسلا م

پھر وہ واپس روا نہ ہو گئے اپنی بستی کے قر یب پہنچے تو وہا ں انہیں پا نی کے پا س قافے کھڑ ے نظر آئے ۔ عین وقت ان کی دونو ں انکھو ں کے درمیا ن چرا غ کی ما نند ایک نو ر پیدا ہو گیا اور ایسا آپ ﷺ کی دعا کی وجہ سے ہو ا تھا ۔رات بھی اندھیر ی تھی ۔اس وقت انہو ں نے دعا کی ؛

اے اللہ اس نو ر کو میر ے چہر ے کے علا وہ کسی اور چیز میں پیدا فر ما دے ۔ مجھے ڈر ہے میر ی قو م کے لو گ یہ نا کہنے لگیں کہ دین بد لنے کی وجہ سے اس کی شکل بگڑ گئی ۔

چنا نچہ اسی وقت وہ نو ر ان کے چہر ے سے ان کے کو ڑ ے میں آگیا ۔ اب ان کو کو ڑا کسی قند یل کی طرح روشن ہو گیا ۔

اسی بنیا د پر حضر ت طفیل بن عمرو دوسی ؑ کو ذی النو ر کہا جا نے لگا یعنی نو والے وہ گھر پہنچے تو ان کے والد ان کے پا س آئے ۔انہو ں نے ان سے کہا :

آپ میر ے پا س نہ آئیں اب میڑا آپ سے کو ئی تعلق نہیں اور نہ آپ کو مجھ سے کو ئی تعلق رہ گیا ہے ۔

یہ سن کر ان کے والد نے پو چھا :

کیو ں بیٹے یہ کیا با ت ہو ئی ؟

انہو ں نے جو اب دیا :

میں مسلما ن ہو گیا ہو ں میں نے محمد کا دین قبو ل کر لیا ہے  یہ سن کر ان کے والد بو ل اُٹھے :

بیٹھے جو تمہا ر دین ہے وہی میرا دین ہے ۔

تب طفیل بن عمر و دوسی ؑ نے انہیں غسل کر نے اور پا ک کپڑ ے پہننے کے لئے کہا ۔ جب وہ ایسا کر چکے تو ان پر سلا م پیش کیا ۔ وہ اسی وقت  کلمہ پڑھ کر مسلما ن ہو گئے  ، پھر ان کی بیو ی ان کے پا س آئیں ۔ انہو ں نے بھی اسلا م قبو ل کر لیا ۔ اب انہوں نے اپنی قوم کو اسلا م پیش کیا وہ لو گ بگڑ گئے ۔

مسجد الحرام سے مسجد اقصی ٰ تک

ان کا یہ حا لدیکھ کر حضر ت طفیل بن عمرودوسی ؑ پھر آپ ﷺ کے پا س گئے اور آپﷺ سے عر ض کیا :

اے اللہ کے رسو ل قوم دوس مجھ پر غا لب آگئ اس لئے آپ انکے لئے دعا فر ما ئے :

آپ ﷺ نے دعا فر ما ئی :

اے اللہ قوم دوس کو ہدا یت عطا فر ما ،انہیں دین کی طر ف لے آ ۔

حضر ت طفیل بن عمر و دوسی ؑ پھر اپنے لو گو ں میں گئے ۔ انہو ں نے پھر دین اسلا م کی تبلیغ شرو ع کی وہ مسلسل انہیں تبلیغ کر تے رہے ، یہا ں تک کہ حضو ر ﷺ مکہ سے ہجر ت کر کے مد ینہ تشر یف لے گئے ۔ آخر وہ  لو گ ایما ن لے آئے حضر ت طفیل بن عمر و دوسی ؑ انہیں ساتھ لے کر مد ینہ آئے اس وقت  تک غزوہ بد ر اور غزوہ احد اور غز وہ خند ق ہو چکے تھے اور نبی کر یم ﷺ خیبر کے مقا م پر مو جو د تھے حضر ت طفیل بن عمر و دوسی کے سا تھ ستر اسی گھرا نو ں کے لو گ تھے ان میں حضر ت ابو ہریرہ بھی تھے ۔ چو نکہ یہ لو گ وہاں غزوہ خیبر کے وقت پہنچے تھے اس لئے نبی کر یم ﷺ نے تما م مسلما نو ں کے ساتھ ان کا بھی حصہ نکا لا ۔ اگر چہ وہ جنگ میں شر یک نہیں ہو ئے تھے ۔ طا ئف کے سفر کے بعد معرا ج کا وا قعہ پیش آیا جو آپ ﷺ پر اللہ تعا لیٰ کا خا ص انعا م اور نبو ت کا بہت بڑ ا معجز ہ ہے ۔ یہ واقعہ اس طرح ہو کہ آپ ﷺ مکہ معظمہ میں حضر ت ام ہا نی ؑ کے گھر رات کے آرام فر ما رہے تھے کہ اللہ تعا لیٰ  نےحضر ت جبر ئیل ؑ اور حضر ت میکا ئیل ؑ کو آپ کے پا بھیجا وہ آپ کو مسجد الحرا م لے گئے پھر وہا ںسے برا ق پر سوا ر کر کے مسجد اقصی ٰ لے گئے جہا ں تما م انبیا نے آپ کی اقتدا میں تما ز ادا کی ۔ اس کے بعد آپکو سا تو ں اسما نو ں کی سیر کر وا ئی گئی اور آپ اللہ تعا لیٰ سے ہم کلام ہو ئے اس سفر کی کچھ اہم تفصیلا ت یہ ہیں :

حضو ر نبی کر یم ﷺ بیت المقد س پہنچنے سے پہلے حضر ت جبر ئیل کے سا تھ چلے جا رہے تھے کہ راستے میں ایک سر سبز علا قے سے گز ر ہو ا ۔ حضر ت جبر ئیل نے آپ ﷺ سے کہا :

یہا ں اتر کر دو رکعت نماز پڑ  ھ لیجیے ۔

آپ نے براق سے اتر کر دو رکعتیں ادا کیں ۔

جبر ئیل نے پو چھا ، آ پ کو معلو م ہے کہ یہ کو ن سا مقا م ہے ۔ آپ نے فر ما یا نہیں ۔ تب جبر ئیل  نے کہا :

یہ آپ نے طیبہ یعنی مد ینہ منورہ میں نما ز پڑ ھی ہے اور یہی آپ کی ہجر ت گا ہ ہے ۔ یعنی مکہ سے ہجر ت کر کے آپ یہیں آنا ہے ۔

اس کے بعد برا ق پھر روانہ ہوا ۔ اس کا ہر قدم جہا ں تک نظر جا تی تھی وہا ں پڑ تا تھا ۔ ایک اور مقا م پر جبر ئیلنے کہا : آپ یہا ں اتر کر نماز پڑ ھیں آپ نے وہا ں بھی دو رکعت ادا کی ۔انہو ں نے بتا یا :آپ نے مد ین میں نماز پڑ ھی ہے ۔ اس بستی کا نا م مد ین حضر ت ابر ہیم ؑ کے بیٹے مدین کے نا م پر رکھا گیا تھا ۔ انہو ں نے اس مقا م پر قیا م کیا تھا ۔ اس کے بعد وہا ں آبا دی ہو گئی تھی ۔ حضر ت شعیب اسی بستی میں مبعوث ہو ئے تھے ۔

کتا ب کے تا لیف عبداللہ فا رانی