شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں ابوسفیان کفار کے 3000 لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ احد کے پہاڑ کے دامن میں ہونے والی یہ جنگ غزوہ احد کہلائی۔ آپ نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو ایک ٹیلے پر مقرر فرمایا تھا اور یہ ہدایت دی تھی کہ جنگ کا جو بھی فیصلہ ہو وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔
ابتدا میں مسلمانوں نے کفار کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ٹیلے پر موجود لوگوں نے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ فتح ہو گئی ہے کفار کا پیچھا کرنا شروع کر دیا یا مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ خالد بن ولید جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اس بات کا فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں پر پچھلی طرف سے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اچانک تھا۔ مسلمانوں کو اس سے کافی نقصان ہوا لیکن کفار چونکہ پیچھے ہٹ چکے تھے اس لئے واپس چلے گئے
آپ ﷺ کے دو دانت شہید ہوئے ۔حضرت عائشہؓ اور حضرت انسؓ کی والدہ محترمہ حضرت ام سلیمؓ اس جنگ میں زخمیوں کو پانی پلاتی رہیں، الآخر مسلمانوں نے کفار کے لشکر کے چھکے چھڑا دیئے اور ان کو وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اس جنگ میں ستر مسلمان شہید ہوئے جن میں حضور اکرمؐ کے چچا حضرت حمزہؓ بھی شامل تھے۔ ان شہداء میں اکثریت انصار کی تھی جن میں41 خزرج، 24 اوس سے اور چار مہاجر تھے جنہوں نے جامِ شہادت نوش کیا ۔ ایک یہودی نے بھی اپنی جان دی۔
قریش کے37 آدمی واصل جہنم ہوئے۔ چند اہل مدینہ اپنے شہداء کو میدانِ جنگ سے شہر لے آئے مگر حضور اکرمؐ نے حکم دیا کہ شہید کو ان کے مقام شہادت پر ہی دفن کیا جائے۔ لہٰذا حضرت حمزہؓ کی قبر کے احاطے میں حضرت مصعب بن عمیرؓ (مسلمانوں کے پہلے سفیر)، حضرت عبداللہ بن جحشؓ اور حضرت شماس بن عثمانؓ کو دفن کیا گیا۔