You are currently viewing “حضرت خالد بن ولید: اللہ کی تلوار، بہادری اور بصیرت کا ورثہ۔”

“حضرت خالد بن ولید: اللہ کی تلوار، بہادری اور بصیرت کا ورثہ۔”

معروف صحابیٔ رسول نیز انتہائی اہم تاریخی شخصیت حضرت خالدبن ولیدؓ کاتعلق مکہ میں قبیلۂ قریش کے مشہور ومعزز ترین خاندان ’’بنومخزوم‘‘ سے تھا،مکہ شہر میں اور اس تمام معاشرے میں سیاسی  معاشرتی  ثقافتی  اور معاشی  غرضیکہ ہرلحاظ سے خاندان بنومخزوم کوبڑی قدرومنزلت حاصل تھی۔ خالد بن ولیدنے جب مکہ شہرمیں اپنی ولادت اور پھر بچپن کے مرحلے کے بعدعہدِشباب میں قدم رکھا تو بہت جلد ہی ان کی فطری صلاحیتیں ظاہر ہونے لگیں ،ان کی شخصیت میں پوشیدہ ہنر نکھر کر سامنے آنے لگے،بالخصوص شجاعت وجرأت  فنونِ حرب میں بے مثال مہارت  جنگی تدابیر سے خوب واقفیت  نیز بھرپور اور لاجواب قائدانہ صلاحیتیں یہ وہ تمام خوبیاں تھیں جن کی بدولت ان کی شخصیت اس معاشرے میں روز بروز خوب نمایاں اور ممتاز ہوتی چلی گئی  حتیٰ کہ آئندہ چل کرایک وقت ایسابھی آیا کہ جب جرأت وشجاعت فنونِ حرب میں بے مثال مہارت اور وسیع وعریض تاریخی فتوحات کے حوالے سے ان کی شخصیت ہمیشہ کیلئے افسانوی اور طلسماتی حیثیت اختیار کر گئی دینِ اسلام کے ابتدائی دورمیں قریشِ مکہ کے دیگراکثروبیشترسرکردہ افرادکی مانندخالدبھی کافی عرصہ تک دینِ اسلام کی مخالفت پر کمر بستہ رہے البتہ مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے مابین باقاعدہ لڑی جانے والی تین بڑی جنگوں کے حوالے سے خالد کی صورتِ حال یہ رہی کہ ۲ھ میں اولین غزوہ یعنی ’’بدر‘‘کے موقع پر خالد کسی وجہ سے شریک نہیں ہوئے تھے۔

اس کے بعد دوسرا غزوہ یعنی ’’اُحد‘‘جوکہ ۳ھ میں پیش آیا تھا، اس موقع پرخالد مشرکینِ مکہ کے لشکر میں موجود تھے،اس موقع پر ابتداء میں مسلمانوں کی فتح اورمشرکین کی شکست کے آثار کافی نمایاں ہونے لگے تھے ،لیکن پھر اچانک مسلمان اپنی ہی ایک غلطی کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ ہارگئے تھے اوراس کے پیچھے خالدہی کی جنگی مہارت اور عسکری تدبیر کا بڑا عمل دخل تھا (جس پرخالد کو قبولِ اسلام کے بعد زندگی بھر بڑی ندامت رہی)۔

جبکہ اس سلسلے کی تیسری جنگ یعنی ’’خندق‘‘ جوکہ ۵ھ میں پیش آئی تھی ،اس موقع پر خالد مشرکینِ مکہ کے لشکرمیں موجود تھے، لیکن اس موقع پرکیفیت یہ رہی تھی کہ باقاعدہ یلغار کی نوبت ہی نہیں آئی تھی۔

اس کے بعد ۶ھ میں مسلمانوں اورمشرکینِ مکہ کے مابین معروف معاہدۂ صلح یعنی ’’صلحِ حدیبیہ‘‘ کے نتیجے میں جب جنگوں کا یہ سلسلہ کچھ تھم گیا تو فطری طور پر بہت سے لوگوں کو اب اس زمانۂ صلح میں نفرتوں عداوتوں  اورمحض جذبات کی دنیا سے نکل کر ٹھنڈے دل ودماغ اور ہوش و حواس کے ساتھ حقیقت پسندانہ طریقے سے صورتِ حال کا جائزہ لینے  نیز ہرقسم کے تعصب اورتنگ نظری سے بالاتر ہوکر دینِ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کے بارے میں غور و فکر کا موقع ملا تب ان مشرکینِ مکہ میں سے بہت سے افراد ایسے تھے کہ اس غوروفکر کے نتیجے میں ان کے دلوں میں دینِ اسلام اور پیغمبرِاسلام کے خلاف نفرت وعداوت کی چنگاریوں کی بجائے اب وہاں ’’ایمان کی بہار‘‘آنے لگی تھی گمراہی کے اندھیرے چھٹنے لگے تھے،اور ان کی جگہ ہدایت کی روشنی پھیلنے لگی تھی۔ یہی وہ دورتھاجب خالدبن ولیدکے دل ودماغ پربھی کچھ ایسی ہی کیفیت طاری رہنے لگی تھی خاص طورپرایک بہترین جنگجواوربے مثال عسکری مہارت رکھنے والے انسان کی حیثیت سے جس بات نے خالدکو بہت زیادہ متأثر کر رکھا تھا  وہ یہ کہ رسول اللہ کی شخصیت میں بھی یہی خوبیاں (یعنی جرأت وشجاعت نیزفنونِ حرب اورعسکری تدابیرمیں بے مثال مہارت اورکامیاب منصوبہ بندی) بدرجۂ اتم موجودتھیں ،لیکن خاص بات یہ کہ اکثرعسکری ماہرین کااصل ہدف اورتمام تر جستجو محض جنگ جیتنے کی خاطر ہوا کرتی ہے خواہ اس مقصد کیلئے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے اخلاقی قدروں کو قدموں تلے کچلنا پڑے یعنی اخلاق انصاف امانت ودیانت اور انسانیت و شرافت کی ان کے نزدیک کوئی خاص اہمیت نہیں ہوا کرتی تمام تر توجہ بس بہرصورت اپنی ’’فتح‘‘پرہی مرکوز ہوا کرتی ہے

sahaba-compition-with-quraish-chalo-masjid-com

جبکہ اس کے برعکس رسول اللہ کی شخصیت میں جرأت وشجاعت اوربے مثال عسکری مہارت اور کامیاب منصوبہ بندی کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ انسانیت وشرافت بھی اپنے عروج پرتھی جوکہ خالدکیلئے ایک بہت ہی عجیب بات تھی اوردرحقیقت یہی وہ اصل وجہ تھی جس کی بناء پران کے دل میں رسول اللہ کی محبت مسلسل گھرکرتی چلی جارہی تھی اور پھر نوبت یہاں تک جاپہنچی کہ ان کے دل میں رسول اللہ کی خدمت میں حاضری اورملاقات کاجذبہ ہمہ وقت موجزن رہنے لگا اور پھر رفتہ رفتہ انہوں نے قبولِ اسلام کا فیصلہ اور عزم بالجزم بھی کرلیا،تب یہ اس مقصدکیلئے جلد از جلد مکہ سے مدینہ کی جانب روانگی کے سلسلے میں منصوبہ بندی میں مشغول ہوگئے۔

البتہ اس موقع پران کی خواہش یہ تھی کہ مدینہ کی جانب تنہاجانے کی بجائے کاش قریشِ مکہ میں سے انہیں کوئی اپناہم خیال شخص مل جائے اور دونوں ایک ساتھ مدینہ کی جانب روانہ ہوں چنانچہ انہوں نے ایک روز اپنے دیرینہ دوست عثمان بن طلحہ سے اس بارے میں گفتگو کی،دینِ اسلام  نیز پیغمبرِاسلام کے بارے میں اپنے ان بدلے ہوئے افکار وخیالات کاتذکرہ و اظہار کیا،جس پر عثمان بن طلحہ نے برجستہ جواب دیاکہ ’’خالد!یقین جانو اب تومیرے بھی بالکل ایسے ہی خیالات ہیں ‘‘۔

اورپھرایک روزیہ دونوں علیٰ الصباح روشنی پھیلنے سے قبل ہی مکہ شہرسے نکل گئے دل میں ایمان کانور نیزحُبِّ رسول ؐ کاطوفان چھپائے ہوئے یہ دونوں سوئے منزل  یعنی مدینۃ الرسول کی جانب رواں دواں ہوگئے۔

اس یادگار اور مبارک سفر کے دوران مکہ شہر کی حدود سے باہر نکلنے کے بعد ان دونوں نے ابھی کچھ ہی مسافت طے کی تھی کہ اچانک ایک جگہ انہیں عمرو بن العاص مل گئے جوکہ رؤسائے قریش میں سے تھے اورمشرکینِ مکہ کی معزز ترین شخصیات میں ان کاشمار ہوتا تھا، تب اس اچانک ملاقات پر ان تینوں کو خوشگوار حیرت ہوئی،اور یہ خوشگوار حیرت اس وقت عظیم مسرت میں بدل گئی جب عمروبن العاص نے انہیں یہ راز کی بات بتائی کہ ان کی منزل بھی مدینہ ہی ہے، اور مقصدِسفربھی وہی ہے ،یعنی رسول اللہ کی خدمت میں حاضری اور قبولِ اسلام چنانچہ اب یہ تینوں ایک ساتھ اپنی منزل کی جانب محوِسفر ہو گئے۔

خالدبن ولیدفرماتے ہیں ’’آخراس طویل اورمسلسل سفرکے بعدہم تینوں مدینہ پہنچے، میری زندگی کاوہ یادگارترین تھا،جب ۸ھ؁میں ماہِ صفرکے پہلے دن ہم تینوں ایک ساتھ رسول اللہ کی خدمت میں حاضرہوئے،ہم تینوں میں سے سب سے پہلے میں نے سلام عرض کیا،جس پرآپؐ نے بڑی ہی خندہ پیشانی اور گرمجوشی کے ساتھ میرے سلام کاجواب دیا،میں نے اپنی حاضری کامقصدبیان کیا،اورآپؐ کے سامنے کلمۂ حق’’أشہدأن لاالٰہ الااللہ وأشہدأن محمداًرسول اللہ‘‘پڑھتے ہوئے دینِ برحق قبول کیا