You are currently viewing سیرت النبی ،میدان جنگ میں صحابہ کا مقا بلہ قریش کے ساتھ

سیرت النبی ،میدان جنگ میں صحابہ کا مقا بلہ قریش کے ساتھ

عمیر  اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر نکلے۔ انہوں نے اسلامی لشکر کے گرد ایک چکر لگایا۔ پھر واپس قریش کے پاس آئے اور یہ خبر دی: “ان کی تعداد تقریباً تین سو ہے۔ ممکن ہے کچھ زیادہ ہوں  مگر اے قریش! میں نے دیکھا ہے ان لوگوں کو لوٹ کر اپنے گھروں میں جانے کی کوئی تمنا نہیں اور میں سمجھتا ہوں، ان میں سے کوئی آدمی اس وقت تک نہیں مارا جائے گا جب تک کہ کسی کو قتل نہ کردے۔” ان کی بات سن کر کچھ لوگوں نے ابوجہل سے کہا: “جنگ کے ارادے سے بعض آجاؤ اور واپس چلو، بھلائی اسی میں ہے۔” واپس چلنے کا مشورہ دینے والوں میں حکیم بن حزام بھی تھے۔ ابو جہل نے ان کی بات نہ مانی اور جنگ پر ٹل گیا اور جو لوگ واپس چلنے کی کہہ رہے تھے، انہیں بزدلی کا طعنہ دیا۔ اس طرح جنگ ٹل نہ سکی۔

ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی کہ اسود مخزومی نے قریش کے سامنے اعلان کیا: “میں اللہ کے سامنے عہد کرتا ہوں کہ یا تو مسلمانوں کے بنائے ہوئے حوض سے پانی پیوں گا  یا اس کو توڑ دوں گا یا پھر اس کوشش میں جان دے دوں گا۔” پھر یہ اسود میدان میں نکلا۔ حضرت حمزہ  اس کے مقابلے میں آئے۔ حضرت حمزہ  نے اس پر تلوار کا وار کیا، اس کی پنڈلی کٹ گئی۔ اس وقت یہ حوض کے قریب تھا، ٹانگ کٹ جانے کے بعد یہ زمین پر چت گرا، خون تیزی سے بہہ رہا تھا، اس حالت میں یہ حوض کی طرف سرکا اور حوض سے پانی پینے لگا۔ حضرت حمزہ  فوراً اس کی طرف لپکے اور دوسرا وار کرکے اس کا کام تمام کردیا۔ اس کے بعد قریش کے کچھ اور لوگ حوض کی طرف بڑھے۔ ان میں حضرت حکیم بن حزام  بھی تھے۔ حضور نبی کریم  نے انہیں آتے دیکھ کر فرمایا: “انہیں آنے دو، آج کے دن ان میں سے جو بھی حوض سے پانی پی لے گا، وہ یہیں کفر کی حالت میں قتل ہوگا۔” حضرت حکیم بن حزام   نے پانی نہیں پیا، یہ قتل ہونے سے بچ گئے اور بعد میں اسلام لائے، بہت اچھے مسلمان ثابت ہوئے۔

sahaba-compition-with-quraish-chalo-masjid-com

اب سب سے پہلے عتبہ، اس کا بھائی شیبہ اور بیٹا ولید میدان میں آگے نکلے اور للکارے: “ہم سے مقابلے کے لیے کون آتا ہے؟” اس للکار پر مسلمانوں میں سے تین انصاری نوجوان نکلے۔ یہ تینوں بھائی تھے۔ ان کے نام معوذ، معاذ اور عوف  تھے۔ ان کے والد کا نام عفرا تھا۔ ان تینوں نوجوانوں کو دیکھ کر عتبہ نے پوچھا: “تم کون ہو؟” انہوں نے جواب دیا: “ہم انصاری ہیں۔” اس پر عتبہ نے کہا: “تم ہمارے برابر کے نہیں  ہمارے مقابلے میں مہاجرین میں سے کسی کو بھیجو، ہم اپنی قوم کے آدمیوں سے مقابلہ کریں گے۔” اس پر نبی کریم  نے انہیں واپس آنے کا حکم فرمایا۔ یہ تینوں اپنی صفوں میں واپس آگئے۔ آپ  نے ان کی تعریف فرمائی اور انہیں شاباش دی۔ اب آپ  نے حکم فرمایا: “اے عبیدہ بن حارث اٹھو! اے حمزہ اٹھو! اے علی اٹھو۔” یہ تینوں فوراً اپنی صفوں میں سے نکل کر ان تینوں کے سامنے پہنچ گئے۔ ان میں عبیدہ بن حارث  زیادہ عمر کے تھے، بوڑھے تھے۔ ان کا مقابلہ عتبہ بن ربیعہ سے ہوا۔ حضرت حمزہ کا مقابلہ شیبہ سے، اور حضرت علی کا مقابلہ ولید سے ہوا۔ حضرت حمزہ  نے شیبہ کو وار کرنے کا موقع نہ دیا اور ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا۔ اسی طرح حضرت علی  نے ایک ہی وار میں ولید کا کام تمام کردیا۔ البتہ عبیدہ بن حارث اور عتبہ کے درمیان تلواروں کے وار شروع ہوگئے۔

دونوں کے درمیان کچھ دیر تک تلواروں کے وار ہوتے رہے، یہاں تک کہ دونوں زخمی ہوگئے۔ اس وقت تک حضرت حمزہ اور حضرت علی رضی الله عنہما اپنے اپنے دشمن کا صفایا کرچکے تھے۔ لہذا وہ دونوں ان کی طرف بڑھے اور عتبہ کو ختم کردیا۔ پھر زخمی عبیدہ بن حارث   کو اٹھا کر لشکر میں لے آئے۔ انہیں آپ  کے پاس لٹا دیا گیا۔ انہوں نے پوچھا: “اے اللہ کے رسول! کیا میں شہید نہیں ہوں؟” آپ  نے ارشاد فرمایا: “میں گواہی دیتا ہوں کہ تم شہید ہو۔” اس کے بعد صفراء کے مقام پر حضرت عبیدہ بن حارث   کا انتقال ہوگیا۔ انہیں وہی دفن کیا گیا

جب کہ حضور  غزوہ بدر سے فارغ ہونے کے بعد مدینہ منورہ کی طرف لوٹ رہے تھے۔ جنگ سے پہلے حضور نبی کریم  نے صحابہ  کی صفوں کو ایک نیزے کے ذریعے سیدھا کیا تھا۔ صفوں کو سیدھا کرتے ہوئے حضرت سواد بن غزیہ   کے پاس سے گذرے، یہ صف سے قدرے آگے بڑھے ہوئے تھے۔ حضور اکرم  نے ایک تیر سے ان کے پیٹ کو چھوا اور فرمایا: “سواد! صف سے آگے نہ نکلو، سیدھے کھڑے ہوجاؤ۔” اس پر حضرت سواد   نے عرض کیا: “اللہ کے رسول! آپ نے مجھے اس تیر سے تکلیف پہنچائی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے حق اور انصاف دے کر بھیجا ہے لہذا مجھے بدلہ دے۔” آپ نے فوراً اپنا پیٹ کھولا اور ان سے فرمایا: “لو! تم اب اپنا بدلہ لے لو۔” حضرت سواد آگے بڑھے اور آپ کے سینے سے لگ گئے اور آپ کے شکم مبارک کو بوسہ دیا۔ اس پر آپ  نے دریافت کیا: “سواد! تم نے ایسا کیوں کیا؟” انہوں نے عرض کیا: “اللہ کے رسول! آپ دیکھ رہے ہیں، جنگ سر پر ہے، اس لیے میں نے سوچا، آپ کے ساتھ زندگی کے جو آخری لمحات بسر ہوں، وہ اس طرح بسر ہوں کہ میرا جسم آپ کے جسم مبارک سے مس کررہا ہو  (یعنی اگر میں اس جنگ میں شہید ہوگیا تو یہ میری زندگی کے آخری لمحات ہیں)۔” یہ سن کر حضور اکرم  نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ ایک روایت میں آتا ہے، “جس مسلمان نے بھی نبی کریم  کے جسم کو چھولیا، آگ اس جسم کو نہیں چھوئے گی۔” ایک روایت میں یوں ہے کہ “جو چیز بھی حضور اکرم  کے جسم کو لگ گئی، آگ اسے نہیں جلائے گی۔”

Leave a Reply