اللہ کے نبی کی حفا ظت
پھر جب حضور اکرم نے صفوں کو سیدھا کردیا تو فرمایا: “جب دشمن قریب آجائے تو انہیں تیروں سے پیچھے ہٹانا اور اپنے تیر اس وقت تک نہ چلاؤ جب تک کہ وہ نزدیک نہ آجائیں۔اسی طرح تلواریں بھی اس وقت تک نہ سونتنا جب تک کہ دشمن بالکل قریب نہ آجائے۔ اس کے بعد آپ نے صحابہ کرام کو یہ خطبہ دیا: “مصیبت کے وقت صبر کرنے سے اللہ تعالیٰ پریشانیاں دور فرماتے ہیں۔ اور غموں سے نجات عطا فرماتے ہیں۔” پھر آپ اپنے سائبان میں تشریف لے گئے۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیق آپ کے ساتھ تھے۔ سائبان کے دروازے پر حضرت سعد بن معاذ کچھ انصاری مسلمانوں کے ننگی تلواریں لیے کھڑے تھے تاکہ دشمن کو نبی کی طرف بڑھنے سے روک سکیں۔ آپ کے لیے وہاں سواریاں بھی موجود تھیں تاکہ ضرورت کے وقت آپ سوار ہوسکیں۔
مومنو ں کے لئے دعا گو
مسلمانوں میں سب سے پہلے مہجع آگے بڑھے۔ یہ حضرت عمر کے غلام تھے، عامر بن حضرمی نے انہیں تیر مارکر شہید کردیا۔ ادھر نبی کریم اپنے سائبان میں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدے میں گرے کر یوں دعا کی: “اے اللہ! اگر آج مومنوں کی جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔” پھر حضور اقدس اپنے سائبان سے نکل کر صحابہ کے درمیان تشریف لائے اور انہیں جنگ پر ابھارنے کے لیے فرمایا: “قسم ہے اس ذات کی، جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے، جو شخص بھی آج ان مشرکوں کے مقابلے میں صبر اور ہمت کے ساتھ لڑے گا، ان کے سامنے سینہ تانے جما رہے گا اور پیٹ نہیں پھیرے گا، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔”
حضرت عمیر بن حمام
حضرت عمیر بن حمام اس وقت کھجوریں کھا رہے تھے۔ یہ الفاظ سن کر کھجوریں ہاتھ سے گرادیں اور بولے: “واہ واہ! تو، میرے اور جنت کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہے کہ ان کافروں میں سے کوئی مجھے قتل کردے۔” یہ کہتے ہی تلوار سونت کر دشمنوں سے بھڑ گئے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ حضرت عوف بن عفراء نے آپ سے پوچھا: “اللہ کے رسول! بندے کے کس عمل پر اللہ کو ہنسی آتی ہے؟” (یعنی اس کے کون عمل سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں)۔ جواب میں آپ نے فرمایا: “جب کوئی مجاہد زرہ بکتر پہنے بغیر دشمن پر حملہ آوار ہو۔” یہ سنتے ہی انہوں نے اپنے جسم پر سے زرہ بکتر اتار کر پھینک دی اور تلوار سونت کر دشمن پر ٹوٹ پڑے، یہاں تک کہ لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔
حضرت معبد بن وہب
حضرت معبد بن وہب دونوں ہاتھوں میں تلوار لے کر جنگ میں شریک ہوئے۔ یہ نبی پاک کے ہم زلف تھے یعنی ام المومنین حضرت سودہ کی بہن کے خاوند تھے۔ جنگ کے دوران حضور نبی کریم نے ایک مٹھی کنکریوں کی اٹھائی اور مشرکوں پر پھینک دی۔ ایسا کرنے کے لیے حضور کو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا تھا کنکریوں کو مٹھی میں پھینکتے وقت حضور نے ارشاد فرمایا: “یہ چہرے خراب ہوجائیں۔” ایک روایت کے مطابق یہ الفاظ آئے ہیں: “اے اللہ! ان کے دلوں کو خوف سے بھردے، ان کے پاؤں اکھاڑ دیں۔” اللہ کے حکم اور حضور کی دعا سے کوئی کافر ایسا نہ بچا جس پر وہ کنکریاں نہ پڑی ہوں۔ ان کنکریوں نے کافروں کو بدحواس کردیا۔ آخر نتیجہ یہ نکلا کہ وہ شکست کھا کر بھاگے۔ مسلمان ان کا پیچھا کرنے لگے۔ انہیں قتل اور گرفتار کرنے لگے۔ کنکریوں کی مٹھی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: “اور اے نبی! کنکریوں کی مٹھی آپ نے نہیں بلکہ ہم نے پھینکی تھی۔”
(سورہ الانفال: آیت 17) حضور نبی کریم نے کافروں کے شکست کھا جانے کے بعد اعلان فرمایا: “مسلمانوں میں جس نے جس کافر کو مارا ہے اس کا سامان اسی مسلمان کا ہے اور جس مسلمان نے جس کافر کو گرفتار کیا، وہ اسی مسلمان کا قیدی ہے۔” وہ کافر جو بھاگ کر نہ جاسکے، انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ اس جنگ میں حضرت ابو عبیدہ بن الجرح نے اپنے باپ کو قتل کیا۔ پہلے خود باپ نے بیٹے پر وار کیا تھا۔ لیکن یہ وار حضرت ابوعبیدہ بچاگئے اور خود اس پر وار کیا، جس سے وہ مارا گیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
“جو لوگ اللہ پر اور قیامت کے دن پر پورا پورا ایمان رکھتے ہیں، آپ انہیں نہ دیکھیں گے کہ ایسے شخصوں سے دوستی رکھتے ہیں جو اللہ اور رسول کے خلاف ہیں اگرچہ وہ ان کے بیٹے یا بھائی یا خاندان میں سے کیوں نہ ہوں۔” (سورۃ المجادلہ: 23)
حضرت عبدالرحمن بن عوف
اس جنگ میں حضرت عبدالرحمن بن عوف نے امیہ بن خلف اور اس کے بیٹے کو قیدی بنالیا۔ اسلام سے پہلے مکہ میں یہ شخص حضرت عبدالرحمن بن عوف کا دوست رہا تھا اور یہی وہ امیہ بن خلف تھا جو حضرت بلال پر بے تحاشہ ظلم کرتا رہا تھا حضرت عبدالرحمن بن عوف ان دونوں کو لیے میدان جنگ سے گذر رہے تھے کہ حضرت بلال کی نظر امیہ بن خلف پر پڑگئی۔حضرت بلال اسے دیکھ کر بلند آواز میں پکارے:کافروں کا سردار امیہ بن خلف یہ رہا اگر امیہ بچ گیا تو سمجھو میں نہيں بچا۔حضرت عبدالرحمن بن عوف کو امیہ اپنے بیٹے کے ساتھ ادھر ادھر بھاگتا نظر آیا تھا حضرت عبدالرحمن بن عوف کے ہاتھ میں کئی زرہیں تھیں۔یہ مال غنیمت میدان جنگ سے ملا تھا،لیکن جونہی انہیں امیہ اور اس کا بیٹا نظر آیا،انہوں نے زرہیں گرادیں اور ان دونوں کو پکڑ لیا اس طرح یہ دونوں اب ان کے قیدی بن گئے ۔یہ انہیں لیے جارہےتھے کہ حضرت بلال نے انہیں دیکھ لیا اور پکارنے لگے: یہ رہا امیہ بن خلف۔حضرت بلال کے الفاظ سنتے ہی حضرت عبدالرحمن بن عوف نے کہا: لیکن یہ دونوں اب میرے قیدی ہیں حضرت بلال نے پھر وہی الفاظ کہے: اگر آج امیہ بچ گیا تو سمجھو میں نہیں بچا ۔ ساتھ ہی حضرت بلال نے لوگوں کو پکارا: اے انصاریو!اے الله کے مددگارو!یہ کافروں کا امیہ بن خلف ہے۔اگر یہ بچ گیا تو سمجھو میں نہيں بچا۔ یہ سن کر انصاری ان کی طرف دوڑ پڑے،انہوں نے چاروں طرف سے انہیں گھیرلیا،حضرت بلال نے تلوار کھینچ لی اور اس پر وار کیا۔