You are currently viewing “حضرت موسیٰ: فرعون کے محل میں حق کی صدا بلند کرنے والا۔”

“حضرت موسیٰ: فرعون کے محل میں حق کی صدا بلند کرنے والا۔”

تمام پیش بندیوں کے باوجود اسرائیلی گھرانے میں عمران شخص کے ہاں  لڑکا پیدا ہوا عمران کی بیوی پریشان تھی کہ کس طرح لڑکے کو بچایا جائے ، فرعون کے کارندے گھر گھر جاتے ہیں عمران کی بیوی کو بھی خوف لاحق ہو گیا ، آخر کار فرعون کے کارندوں کو معلوم ہو گیا وہ اچانک دروازے پر دستک دینے لگے۔ عمران کی بیوی سمجھ گئی اس نے فوراً بچہ کو جلتے ہوئے تنور کے اندر ڈال دیا اس طرح فرعون کے آدمیوں کو شک بھی نہیں ہوگا پھر گھر کا دروازہ کھول دیا کارندے گھر کے اندر گھس آئے ہر طرف دیکھا کونے کھدرے میں جھانکا بچہ کہیں بھی نظر نہیں آیا پھر وہ لوگ واپس چلے گئے عمران کی بیوی کو پختہ یقین تھا کہ بچہ جل کر بھسم ہو چکا ہوگا ، اس نے دل پر ہاتھ رکھ کر فورا تنور میں دیکھا تو خوشی کے مارے اچھل پڑی، بچہ آگ میں زندہ سلامت تھا فورا بچہ کو آگ سے نکالا بچہ پوری طرح محفوظ تھا جسم کا کوئی حصہ بھی نہیں جلا تھا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا ، خطرہ ٹل گیا۔

اللہ نے عمران کی بیوی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ بچہ کو دودھ پلا کر اور کپڑے پہنا کر صندوقچہ میں بند کر کے دریائے نیل میں بہادے عمران کی بیوی نے ایک خاص قسم کا صندوقچہ تیار کروایا جس میں پانی داخل ہونے کا کوئی راستہ نہیں تھا بچہ کو دودھ پلایا اور کپڑے پہنا کر صدوقچہ میں لٹا دیا اور اطمینان کے ساتھ دریائے نیل کی سطح پر ڈال دیا۔ عمران کی ایک بیٹی تھی جس کا نام مریم تھا ماں نے بیٹی سے کہا کہ اس صندوقچہ کے ساتھ ساتھ دریا کے کنارے چلو اور یہ دیکھتی رہو کہ صندوقچہ کہاں پہنچتا ہے، چنانچہ مریم نے ایسا ہی کیا۔ صندوقچہ پانی کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ بہتا رہا۔ اسی دریا سے ایک اور شاخ فرعون کے محل کے احاطہ میں نکالی گئی تھی صندوقچہ محل کے احاطہ میں داخل ہو گیا عین محل کے سامنے رک گیا وہاں فرعون اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا صندوقچہ پر دونوں کی نگاہیں پڑیں مریم سب کچھ دیکھتی رہی جیسے ہی صندوقچہ فرعون کے محل کے پاس رکا مریم واپس لوٹ گئی اپنی ماں کو سارا ماجرہ سنا دیا فرعون نے صندوقچہ نکالا جب کھول کر دیکھا تو ایک خوبصورت بچہ ہاتھ پاؤںمار کر، چیخ رہا تھا دونوں حیرت میں پڑ گئے اور ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے پھر فرعون نے کہا کہ بچہ اسرائیلی معلوم ہوتا ہے، اسے ماردینا چاہئے اس پر فرعون کی بیوی نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا کوئی بچہ نہیں ہے کیا ہی اچھا ہو کہ اسے ہی پال پوس کر بڑا کیا جائے ، جب یہ اپنی عمر کو پہنچے گا تو ہماری تمام عادتیں اور مزاج اپنا لے گا اسے ہم اپنا بیٹا بنا ئیں گے فرعون نے بیوی کی باتوں کو غور سے سنا اور مان گیا۔ دونوں نے بچہ کو اٹھا لیا اور پرورش کرنے لگے لیکن بچہ دودھ نہیں پی رہا تھا۔ پرورش کے لئے بہت سی دایہ عورتوں کو بلایا گیا لیکن بچہ نے کسی کا دودھ نہیں پیا۔ مریم نے فرعون کی بیوی سے کہا کہ ایک دایہ میں لاؤں گی بچہ یقینا اس کا دودھ پیئے گا مجھے اجازت دو، فرعون کی بیوی مان گئی اور کہا کہ ایسی ہی دایہ لے آؤ جو بچہ کو دودھ پلا سکے میں معقول معاوضہ دوں گی ۔ مریم فورا ماں کے پاس گئی اور خوش خبری سنائی اور ماں کو ساتھ لیتی آئی۔ عمران کی بیوی فرعون کے محل میں پہنچ گئی بچہ کو سینے سے لگایا بچہ نے خوشی خوشی دودھ پینا شروع کیا فرعون کی بیوی بچہ کو دودھ پیتاد یکھ کر خوش ہو گئی عمران کی بیوی کو اپنے محل میں ملازمہ رکھ لیا۔ ماں اور بچہ ایک ساتھ رہنے لگے . دن گزرتے گئے حضرت موسی محل کے اندر پرورش پانے لگے جب ان کی عمر بیس سال ہوئی تو فرعون نے شادی کرادی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اکثر محل سے نکل کر شہر میں ادھر ادھر گھوما کرتے ان کا یہ روز کا معمول تھا ایک روز وہ ایک راستہ سے گزر رہے تھے کہ ایک قبطی ، اسرائیلی سے الجھ رہا تھا کہ نوبت مار پیٹ تک پہنچ گئی اسرائیلی نے موسیٰ علیہ السلام کو آواز دیتے ہوئے مدد کے لئے پکارا جب موسیٰ علیہ السلام قریب پہنچے تو دیکھا کہ قبطی ، اسرائیلی کو بے تحاشہ مار رہا ہے موسیٰ علیہ السلام نے بیچ بچاؤ کی کوشش کی لیکن قبطی نہیں مان رہا تھا اس پر موسیٰ علیہ السلام نے قبطی کے ایک گھونسا مارا تو وہ بلبلا اٹھا اور ایک لمحہ بعد ہی وہ مر گیا اس کے مرنے پر موسیٰ علیہ السلام پریشان ہو گئے اور اسرائیلی سے کہا کہ وہ فوراً چلا جائے اس واقعہ سے موسیٰ علیہ السلام کو ندامت ہوئی، جان سے مارنے کی نیت نہیں تھی ، پھر آپ نے اللہ تعالی سے گریہ زاری کے ساتھ دعا کی: اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا مجھ کو بخش دے، بے شک تو بڑا بخشنے والا ہے۔ فرعون نے حکم دیا کہ قاتل کو تلاش کرو ، کچھ عرصہ بعد موسیٰ علیہ السلام ایک راستے سے گزر رہے تھے دیکھا کہ وہی اسرائیلی ایک اور قبطی سے الجھ رہا تھا اس نے پچھلی مرتبہ کی طرح موسیٰ کو پکارا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسرائیلی کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تم ہمیشہ لوگوں سے لڑتے رہتے ہو اور مجھے بلاتے ہو اسرائیلی نے چیختے ہوئے کہا کہ موسیٰ ہم پر کیوں خفا ہوتے ہو کیا تم مجھے بھی مار ڈالو گے جیسا کہ کچھ دن قبل تم نے ایک قبطی کو مار ڈالا تھا، اسرائیلی کی زبان سے نکلی ہوئی یہ بات راہ گیروں نے سن لی ، حضرت موسیٰ علیہ السلام گھبرا گئے کہ بات فرعون کے کانوں تک پہنچ جائے گی اور وہ مجھے سزا دے گا۔ آپ نے اس خیال سے مصر سے نکل جانے کا فیصلہ کیا فرعون کے قہر سے بچنے کا ظاہری طور پر یہی ایک راستہ تھا

Leave a Reply