تعارف
حضرت انس بن مالک ؓ کاتعلق مدینہ میں مشہور و معزز ترین خاندان’’بنونجار‘‘ سے تھا، نبوت کے بارہویں سال بیعتِ عقبہ اولیٰ کے فوری بعد جب رسول اللہ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کومعلم و مربی کی حیثیت سے مدینہ والوں کی جانب روانہ فرمایا تھا، تب وہاں مدینہ میں ان کی تبلیغی کوششوں اور دعوتی سرگرمیوں کے نتیجے میں بڑی سرعت کے ساتھ دینِ اسلام کی نشر و اشاعت ہونے لگی تھی چنانچہ انہی دنوں حضرت انس بن مالک ؓ کی والدہ ’’اُم سُلیم‘‘(جوکہ اس کنیت سے معروف تھیں ، اصل نام رُمیصاء بنت ملحان النجاریہ تھا) بھی دعوتِ حق پرلبیک کہتے ہوئے مشرف باسلام ہوگئی تھیں البتہ ان کا شوہر بدستور اپنے آبائی دین یعنی کفر و شرک پر ہی قائم رہا،اور پھر کچھ عرصے بعد کسی قبائلی جنگ کے موقع پرمارا گیا اورتب اُم سُلیمؓ کی شادی انہی کے خاندان’’بنونجار‘‘کے ایک معزز ترین شخص حضرت ابوطلحہ انصاری ؓ کے ساتھ ہوگئی۔
سر پر ستی
اُم سُلیم ؓ کی حضرت ابوطلحہ انصاری ؓ کے ساتھ شادی کے وقت ان کے بیٹے انس بن مالکؓ کی عمر محض نوسال تھی، بالکل ہی بچپن کازمانہ تھا، لہٰذااس کے بعد گویا ان کی تربیت بڑے پیمانے پرحضرت ابوطلحہ انصاریؓ کی سرپرستی میں ہوئی۔
اس کے بعد محض اگلے ہی سال جب نبوت کا تیرہواں سال چل رہاتھا حجِ بیت اللہ کے موقع پر مدینہ سے آئے ہوئے حجاج میں سے بہتّر افراد ایسے تھے جو آپؐ کی ہجرتِ مدینہ سے قبل ہی آپؐ کے سفیر اور قاصد حضرت مصعب بن عمیرؓ کی طرف سے دعوتِ اسلام کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کے نتیجے میں دینِ اسلام قبول کرچکے تھے اوراب حجِ بیت اللہ کے موقع پرمنیٰ میں انہوں نے رسول اللہ سے خفیہ ملاقات نیز آپؐ کے دستِ مبارک پربیعت کی تھی جوتاریخ میں ’’بیعتِ عقبہ ثانیہ‘‘کے نام سے معروف ہے،اور پھر اسی یادگار موقع پر ہی ان بہتّر افراد نے آپ کو مدینہ تشریف آوری کی دعوت دی تھی،نیز آپؐ کی ہر طرح حفاظت وحمایت کا عہد و پیمان کیاتھا انہی بہتّر خوش نصیب ترین افراد میں حضرت ابوطلحہ انصاری ؓ(یعنی حضرت انس بن مالکؓ کے سرپرست) بھی شامل تھے۔
اور پھر اسی دعوت کے نتیجے میں رسول اللہ و دیگر تمام مسلمان رفتہ رفتہ مکہ سے مدینہ ہجرت کرگئے تھے۔
ہجرت
ہجرتِ مدینہ کے موقع پررسول اللہ کی جب مدینہ تشریف آوری ہوئی تب حضرت انس بن مالکؓ کی عمر محض دس سال تھی،اس موقع پران کی والدہ اُم سُلیم انہیں ہمراہ لئے ہوئے رسول اللہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی تھیں ، اور عرض کیا تھا کہ ’’اے اللہ کے رسول!میری یہ دلی خواہش ہے کہ میرا یہ بیٹا آپ کی خدمت میں رہے،تاکہ روزمرہ کے کام کاج میں یہ آپ کی خدمت بھی انجام دے،نیز آپ ہی کی زیرِسرپرستی اس کی تربیت اور نشو ونما ہو،تاکہ اس طرح یہ اعلیٰ اخلاق و کردار اپنا سکے لہٰذا آپ اسے اجازت مرحمت فرمائیے‘‘
اس پر آپؐ نے اس نو عمر یعنی انس بن مالکؓ کواپنی صحبت ومعیت میں رہنے کی اجازت مرحمت فرمائی چنانچہ اب انس بن مالکؓ کے شب وروز آپؐ کی خدمت اورصحبت ومعیت میں بسر ہونے لگے گویا اب ان کیلئے آپؐ ہی والد معلم ومربی سرپرست اور سبھی کچھ تھے، آپؐ کی خدمت میں رہتے ہوئے انس بن مالکؓ آپؐ کے ہرقول وفعل ہرادا ہرانداز اور ہر نقل وحرکت کو بغور دیکھتے ، اس سے بہت کچھ سیکھتے ،اور پھر اسے اپنا لیتے، اور اپنی روزمرہ کی زندگی میں اسے اپنا معمول بنالیتے
ہجرتِ مدینہ کے بعداب رسول اللہ کی حیاتِ طیبہ کایہ مدنی دورجوکہ دس سال کے عرصے پرمحیط تھا اس تمام عرصے میں حضرت انس بن مالک ؓ مسلسل آپؐ کی خدمت کامبارک فریضہ سرانجام دیتے رہے، آپؐ کی مبارک شخصیت نیز آپؐ کے پاکیزہ اخلاق وکردارسے یہ بہت زیادہ متأثر تھے،ان کے قلب وجگر میں اور رگ وپے میں آپؐ کی محبت نیز آپؐ کیلئے احترام اورعقیدت کے جذبات رچ بس گئے تھے جس کااظہاران کے ان الفاظ سے ہوتاہے: (کَان رَسُولُ اللّہِ أحسَنَ النّاسِ خُلُقاً)
یعنی’’رسول اللہ توتمام لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق کے حامل تھے‘‘
نیز: (مَا مَسِسْتُ دِیبَاجاً وَلَا حَرِیراً ألیَنَ مِن کَفِّ رَسُولِ اللّہِ ، وَلَا شَمَمْتُ رَائِحَۃً قَطُّ أطیَبَ مِن رَائِحَۃِ رَسُولِ اللّہِ ، وَلَقَد خَدَمتُ رَسُولَ اللّہِ عَشرَ سِنِینَ ، فَمَا قَالَ لِي أُف قَطُّ ، وَمَا قَالَ لِي لِشَیٍٔ فَعَلتُہٗ لِمَ فَعلتَہٗ؟ وَلَا لِشَیٍٔ لَم أفعَلْہُ: ألَا فَعَلْتَ کَذا؟)
یعنی ’’میں نے رسول اللہ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم کوئی ریشم نہیں چھوا،اوررسول اللہ کے جسم اطہرسے پھوٹنے والی خوشبوسے زیادہ پاکیزہ خوشبوکبھی نہیں سونگھی، اورمیں نے رسول للہ کی دس سال خدمت کی، آپ نے مجھے کبھی اُف تک نہیں کہا،اورجوکام میں نے کیا اس کی بابت یہ نہیں کہاکہ تم نے یہ کیوں کیا؟ اورجوکام میں نے نہیں کیا اس کی بابت یہ نہیں کہاکہ تم نے اس طرح کام کیوں نہیں کیا؟‘‘
٭ رسول اللہ کے ساتھ حضرت انس بن مالک ؓ کاتعلق محض خدمت تک محدودنہیں تھا،بلکہ طلبِ علم اورکسبِ فیض کاسلسلہ بھی نہایت اہتمام والتزام کے ساتھ جاری تھا،اس سے بھی بڑھ کریہ کہ آپؐ انسؓ کیلئے معلم ومربی بھی تھے،بلکہ آپؐ نے انہیں ہمیشہ اپنے بچوں ہی کی طرح سمجھا،مزیدیہ کہ آپؐ نے انہیں اپنا’’امین السر‘‘یعنی ’’خاص رازدان‘‘بھی مقررفرمایا۔
جیساکہ حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں : خَدَمتُ رَسُولَ اللّہِ عَشْرَ سِنِینَ ، فَلَم یِضْرِبْنِي ضَربَۃً قَطُّ ، وَلَم یَسُبَّنِي ، وَلَم یَعْبِسْ فِي وَجْھِي ، وَکَانَ أوّلُ مَا وَصَّانِي بِہٖ أن قَالَ: یَا بُنَيّ! اُکتُم سِرِّي تَکُن مُؤمِناً فَمَا أخبَرتُ بِسِرِّہٖ أحَداً وَاِن کَانَت أُمِّي ، وَأزوَاجُ النَّبِيّ یَسألنَنِي أن أُخبِرَھُنَّ فَلَاأُخبِرُھُنّ ، وَلَا أُخبِرُ بِسِرِّہٖ أحَداً أبَداً (۳)
ترجمہ’’میں نے دس سال مسلسل رسول اللہ کی خدمت انجام دی،اس دوران آپؐ نے کبھی مجھے زدوکوب نہیں کیا،کبھی میرے ساتھ بدکلامی نہیں کی، کبھی میرے سامنے ترش روئی کا مظاہرہ نہیں کیا، آپؐ نے سب سے پہلے مجھے جس بات کی تاکید فرمائی وہ یہ تھی کہ’’اے بچے!میرے راز کو ہمیشہ چھپائے رکھنا تم مؤمن بن جاؤگے‘‘چنانچہ میں نے کبھی کسی کے سامنے آپؐ کاکوئی راز ظاہر نہیں کیا حتیٰ کہ اپنی والدہ کے سامنے بھی نہیں بعض اوقات آپؐ کی ازواج مطہرات مجھ سے آپؐ کا کوئی راز پوچھا کرتی تھیں ،لیکن میں نے انہیں بھی کبھی کچھ نہیں بتایا،بلکہ میں نے توکبھی کسی کے سامنے بھی آپؐ کاکوئی رازفاش نہیں کیا‘‘