You are currently viewing   حضرت ذوالقرنین اور یاجوج ماجوج

  حضرت ذوالقرنین اور یاجوج ماجوج

حضرت ذوالقرنین کا نام قرآن مجید میں صراحت سے نہیں آیا، لیکن ان کا ذکر سورۃ الکہف میں ہوا ہے۔ قرآن پاک میں انکا تذکرہ ایک طاقتور اور عظیم سلطنت کے مالک کے طور پر  کیا گیا ہے۔ “ذوالقرنین” کے لفظی معنی “دو سینگوں والا” ہوتے ہیں، اور اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ مشرق اور مغرب دونوں سمتوں میں اپنی طاقت رکھتے تھے۔ اسلامی روایات اور تفاسیر میں ان کے بارے میں مختلف رائے پائی جاتی ہیں، لیکن قرآن پاک نے ان کے اخلاق اور عمل کی تعریف بیان کی ہے۔

حضرت ذوالقرنین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وسیع سلطنت کے مالک تھے  بض روایت کیمطابق وہ حضرت خضر کے خالہ زاد بھائی تھے  حضرت ذوالقرنین نے مختلف علاقوں کا سفر کیا۔ قرآن میں ان کی سلطنت کی عظمت اور انصاف کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے۔ وہ اپنی قوت، علم، اور عدل کی بنا پر مشہور تھے اور ان کی حکومت میں ظلم و زیادتی کا کوئی گزر نہ تھا۔

حضرت ذوالقرنین نے اپنی مملکت کے مشرقی حصے کا سفر کیا، جہاں انہوں نے لوگوں کی حالت دیکھی۔ قرآن مجید کی سورہ کہف آیت ٨٩ ٩٠ میں اس سفر کا ذکر ہے

ترجمہ: “یہاں تک کہ جب وہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ تک پہنچے، تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک کیچڑ والی آنکھ میں غروب ہوتا ہے، اور وہاں اس نے ایک قوم پائی۔ ہم نے کہا: اے ذوالقرنین! یا تو تم انہیں عذاب دو، یا ان کے درمیان کچھ اچھائی اختیار کرو۔”

اس سفر کے دوران حضرت ذوالقرنین نے لوگوں کے مختلف مسائل کوحل کرنے میں انکی امدداد  فرمائی اور عدل و انصاف کے اصولوں کو اختیار کیا

اُسکے بد ذوالقرنین نے مغرب کی جانب سفر کیا

وہاں انہوں نے سورج کو غروب ہوتے دیکھا اور وہاں کے لوگوں کی حالت کا جائزہ لیا۔ قرآن مجید کی آیت 90 میں ذکر ہے:

ترجمہ: “یہاں تک کہ جب وہ سورج کے طلوع ہونے کی جگہ تک پہنچے، تو اس نے دیکھا کہ سورج ایک قوم پر طلوع ہوتا ہے، جن کے لیے سورج کے سوا کوئی ڈھال نہیں تھی۔”

یہ بدوی قوم تھی اور غیر مہذب تھی، جو کسی بڑی تہذیب سے نا آشنا تھی۔ ذوالقرنین نے ان کے ساتھ عدل کا سلوک کیا اور انہیں بنیادی زندگی کی سہولیات میسر کرائیں

یاجوج ماجوج کا سامنا

ذوالقرنین کا تیسرا سفر ایک الگ قسم کی قوم کی جانب تھااس قوم کو قرآن پاک میں یاجوج ماجوج کے نام سے پکارا گیا ہے۔  عربی لغت کے مطابق عموماً جنگجو اور فسادی قوموں کے لیے یہ نام استعمال ہوتا ہے۔ ذوالقرنین نے ان کے ساتھ امن قائم کرنے کی کوشش کی اور ان کی بے قابو قوت کو روکنے کے لیے ایک مضبوط دیوار تعمیر کی۔

قرآن مجید کی سورۃ الکہف میں یاجوج ماجوج کا ذکرکچھ یوں بیان کیا گیا ہے:

ترجمہ: “اور وہ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجئے: میں تمہیں اس کی کچھ خبر سناؤں گا۔ ہم نے اسے زمین میں اقتدار دیا اور ہر چیز کا سبب دیا۔ پھر اس نے ایک سبب کا پیچھا کیا۔”

یاجوج ماجوج ایسی قومیں ہیں جو اپنے وقت پر زمین پر فساد مچاتی ہیں۔ قرآن کریم میں ان کی بے قابو قوت اور ان کے فسادات کی شدت کا تذکرہ موجود ہے۔

ذوالقرنین نے یاجوج ماجوج کی قوم کو روکنے کے لیے ایک بڑی دیوار تعمیر کی۔ سورہ کہف کی آیات٩٥ ٩٦ میں اس دیوار کے بارے میں بیان ہے:

ترجمہ: “اس نے کہا: میرے رب نے مجھے جو کچھ دیا ہے، وہ بہتر ہے۔ لیکن تم مجھے طاقت دو، میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک بند بنا دوں گا۔ مجھے لوہے کی بڑی چادریں دو، یہاں تک کہ جب انہوں نے دونوں پہاڑوں کی سطح کو برابر کر دیا، تو اس نے کہا: ہوا کو دھونک دو، یہاں تک کہ جب وہ لوہا دہکنے لگا، تو اس نے کہا: مجھے پگھلا ہوا تانبہ دو، تاکہ میں اس پر ڈال سکوں۔”

ذوالقرنین نے دیوار کے لیے لوہے کی چادریں اور پگھلا ہوا تانبہ استعمال کیا تاکہ دیوار مضبوط اور نا قابلِ عبور ہو

دیوار اتنی مضبوط تھی کہ یاجوج ماجوج اسے توڑ نہ سکے۔ یہ دیوار ایک طرح کی حفاظتی لکیر تھی جو یاجوج ماجوج کی حملہ آور فوجوں کو ان کے علاقے سے باہر آنے سے روکتی تھی۔ قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے قریب یہ دیوار ٹوٹ جائے گی اور یاجوج ماجوج آزاد ہو جائیں گے، جس سے زمین پر بڑے پیمانے پر فساد برپا ہوگا۔

حضرت ذوالقرنین کے واقعہ میں عدل و انصاف کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ وہ ہر قوم کے ساتھ انصاف کا برتاؤ کرتے ہیں، چاہے وہ مغرب کی بدوی قوم ہو یا مشرق کی تہذیب یافتہ قوم ہو۔ ان کی زندگی اور حکومت میں انصاف اور لوگوں کی بھلائی ہمیشہ مقدم رہی۔

یاجوج ماجوج کی دیوار کا قصہ قیامت کے قریب آنے والی علامات میں سے ایک ہے۔ قرآن میں ذکر ہے کہ قیامت کے قریب یہ دیوار ٹوٹ جائے گی اور یاجوج ماجوج زمین پر فساد مچائیں گے۔ اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ قیامت کے قریب بہت سی تبدیلیاں آئیں گی اور انسانیت کو ان کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ

حضرت ذوالقرنین کے قصے میں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ہر انسان کو اپنی طاقت اور وسائل کا استعمال لوگوں کی بھلائی اور معاشرتی بہتری کے لیے کرنا چاہیے۔ ذوالقرنین نے اپنی طاقت کا استعمال نیکی اور فلاح کے لیے کیا، جس سے یہ سکھایا گیا کہ قیادت اور اقتدار کا مقصد لوگوں کی خدمت اور معاشرے اور قوموں کی بہتری ہونا چاہیے۔

تاریخی مطالعے میں ذوالقرنین اور یاجوج ماجوج کی شناخت کے حوالے سے مختلف نظریات پیش کیے گئے ہیں۔ بعض علماء اور محققین نے یہ سمجھا ہے کہ ذوالقرنین ایک عظیم سلطنت کے مالک تھے جو مشرق اور مغرب کے مختلف علاقوں  یعنی ایک وسیع  سلطنت پر حکمرانی کرتے تھے، جبکہ یاجوج ماجوج مختلف قبائل یا قوموں کی نمائندگی کرتے ہیں جو تاریخی یا جغرافیائی حالات کے مطابق فساد پھیلانے والے سمجھے جاتے ہیں۔ حضرت ذوالقرنین اور یاجوج ماجوج کا قصہ قرآن مجید میں موجود واقعات میں ایک اہم باب ہے جو انصاف، قیادت، اور قیامت کے قریب آنے والی علامات کے بارے میں فہم اور معلومات فراہم کرتا ہے۔ ذوالقرنین کی زندگی اور ان کے عمل ایک مثالی حکمران کی تصویر پیش کرتے ہیں جو عدل و انصاف کے اصولوں پر عمل پیرا ہوتا ہے اور اپنی طاقت کا استعمال معاشرتی بہتری کے لیے کرتا ہے۔ یاجوج ماجوج کی دیوار کادیوار عبور کر کے دیگر دنیا میں فساد پھیلانا قیامت کے قریب آنے والی مشکلات اور آزمائشوں کی پیش گوئی ہے اللہ تعالیٰ تمام مومنین کو ہر طرح کےشر سے محفوظ فرمائے آمین،

Leave a Reply