حضرت عبد اللہ بن عبا بیان فرماتے ہیں:
ایک دن حضرت ابو بکر صدیق اپنے گھر سے مسجد کی طرف جارہے تھے۔ دھوپ بہت تیز تھی۔ راستے میں حضرت عمر سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے آپ سے دریافت کیا حضرت آپ اس وقت یہاں کیسے فرمانے لگے مجھے اس وقت بہت زیادہ بھوک لگی ہوئی ہے۔
حضرت عمرنے بھی فرمایا:
بخدا میں بھی اسی بھوک کی وجہ سے نکل آیا ہوں۔ دونوں باتیں کر رہے تھے
کہ اتنے میں رسول االلہ بھی ادھر آنکلے۔ آپ نے دریافت فرمایا: آپ دونوں اس وقت یہاں کیسے کھڑے ہو ؟
دونوں نے بیک زباں عرض کی۔ یا رسول اللہ بھوک بہت زیادہ لگی ہوئی ہے۔ نبی کریم نے ارشاد فرمایا:
اس اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میں بھی بھوک کی وجہ سے گھر سے نکلا ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا میرے ساتھ آؤ اور آپ
ان دونوں کو اپنے ہمراہ لے کر حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر روانہ ہوگئے۔ حضرت ابوایوب رسول اللہ کے لئے روزانہ کھانا محفوظ رکھتے تھے۔ جب آپ تشریف نہ لاتے تو وہ اہل خانہ کو کھلا دیا جاتا۔
جب دروازے پر پہنچے تو ام ایوب نے نبی کریم اور آپ کے ساتھیوں کو خوش آمدید کا۔ آپ نے دریافت فرمایا: کہ ابو ایوب کہاں ہے۔ وہ گھر کے قریب ہی نخلستان میں مصروف عمل تھے۔ وہیں پر انہوں نے نبی کریم کی آواز سنی تو دوڑتے ہوئے آئے۔ سب سے پہلے رسول اللہ اور آپ کے ساتھیوں کو خوش آمدید کہا اور عرض کی حضور! خیر تو تھی، آج آپ اس وقت میرے غریب خانہ پر تشریف نہ لائے جس وقت روزانہ تشریف لایا کرتے تھے۔
آپ نے فرمایا۔ ہاں سچ ہے، آج کچھ تاخیر ہو گئی۔
پھر حضرت ابو ایوب جلدی سے نخلستان کی طرف گئے اور کھجور کی ایک ٹہنی کاٹ لائے جس کے ساتھ خشک اور تر کھجوریں لگی ہوئی تھیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: آپ نے یہ ٹہنی کیوں کاٹی آپ صرف خشک کھجوریں چن
لاتے۔
انہوں نے کہا یا رسول اللہ یہ میرا یہ جی چاہتا ہے کہ آپ ہر طرح کی کھجوریں تناول فرمائیں۔ ابھی میں آپ کے لئے ایک جانور بھی ذبح کرتا ہوں۔
آپ نے ارشاد فرمایا:
دیکھئے، دودھ دینے والا جانور ذبح نہ کرنا۔
حضرت ابو ایوب نے بکری کا ایک بچہ پکڑا اور اسے ذبح کر دیا۔ پھر اپنی بیوی سے کہا کہ جلدی جلدی کھانا تیار کرو۔ بیوی روٹی پکانے میں مصروف ہو گئی اور خود نصف گوشت کا سالن پکایا اور نصف گوشت خشک بھون کر تیار کیا جب کھانا تیار ہو گیا تو نبی کریم اور آپ کے ساتھیوں کے سامنے لگا دیا گیا۔ سب سے پہلے رسول اللہ نے گوشت کا ایک ٹکڑا لیا اور روٹی پر رکھ کر ارشاد فرمایا:
ابو ایوب یہ میری بیٹی فاطمہ کے پاس لے جاؤ کئی دن سے اسے اس طرح کا کھانا نصیب نہیں ہوا۔ پھر سب نے مل کر کھانا تناول کیا۔
نبی نے اپنے سامنے یہ نعمتیں دیکھ کر ارشاد فرمایا: روٹی گوشت خشک، تر اور کچی کھجوریں۔ یہ الفاظ کہے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے، یہی تو وہ نعمتیں ہیں جن کے متعلق قیامت کے دن تم سے پوچھا جائے گا۔ جب تمہیں اس قسم کی کوئی نعمت ملے تو کھاتے وقت بسم اللہ کہو اور جب کھا چکو تو ان الفاظ سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هُوَ أَشْبَعَنَا وَأَنعَمَ عَلَيْنَا فَأَفْضَلَ
ستائش ہے اس اللہ کی جس نے ہمیں سیر کیا اور ہم پر اپنا انعام و فضل کیا۔
بعد ازاں رسول اللہ نے حضرت ابو ایوب سے ارشاد فرمایا:
کل ہمارے پاس آنا۔
رسول اللہ کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ جب بھی کوئی شخص آپ سے حسن سلوک سے پیش آتا تو آپ بھی اس کا بہتر بدل دیتے، لیکن حضرت ابو ایوب بھی اللہ کو رسول اللہ کا ارشاد سنائی نہ دیا تو حضرت عمر نے انہیں بتایا کہ نبی کریم آپ کو یہ حکم دے رہے ہیں کہ کل تم نے آپ کے پاس آنا ہو گا۔ تو حضرت ابو ایوب نے کہا۔ رسول االلہ کا حکم سر آنکھوں پر۔
ملا قات رسول
دوسرے دن حضرت ابو ایوب نبی اکرم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے
آپ نے انہیں ایک نو عمر لونڈی دی اور فرمایا :
ابو ایوب! اس سے بہتر سلوک کرنا کیونکہ جب سے یہ ہمارے پاس ہے ، ہم نے اسے نہایت ہی نیک اور فرمانبردار پایا ہے۔
جب حضرت ابو ایوب واپس گھر تشریف لائے تو ان کے ساتھ وہ لونڈی بھی تھی۔
جب اسے آپ کی بیوی ام ایوب نے دیکھا تو دریافت کیا؟ ابو ایوب یہ کون ہے؟ آپ نے بتایا کہ یہ رسول اللہ نے ہمیں بطور تحفہ عنایت کی ہے، تو وہ بولیں: تحفہ عنایت کرنے والے کتنے عظیم ہیں اور تحفہ کتنا عمدہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا
رسول اللہ نے ہمیں اس کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کی تلقین کی ہے۔ بیوی نے دریافت کیا کہ ہم کیا کریں اور کس طرح رسول اللہ سلیم کی وصیت ۔عمل کریں؟
آپ نے فرمایا:
میرے خیال میں تو رسول اللہ سلیم کی وصیت پر اسی صورت میں عمل ہو سکتا ہے کہ ہم اسے آزاد کر دیں۔
وہ فوراً بولیں۔
آپ نے بالکل درست سوچا اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے پھر اسے آزاد کر دیا
یہ تو حضرت ابو ایوب انصاری کی زندگی کا زمانہ امن میں ایک درخشاں پہلو ہے۔ اگر زمانہ جنگ میں آپ کی زندگی کے بعض کارنامے ملاحظہ کریں تو آپ حیران رے جائیں گے۔ حضرت ابو ایوب انصاری زندگی بھر غازی بن کر رہے۔ آپ کے متعلق یہ بات مشہور تھی کہ رسول اللہ کے عہد مبارک سے حضرت معاویہ کے عہد حکومت تک جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں ، آپ بھی ان میں شریک ہوئے۔ الا یہ کہ آپ کسی دوسرے مشن میں مشغول ہوں۔ آپ کی آخری جنگ وہ ہے جس میں حضرت امیر معاویہ نے اپنے بیٹے کی قیادت میں ایک لشکر قسطنطنیہ روانہ کیا تو اس وقت حضرت ابو ایوب عمر رسیدہ تھے، لیکن اس کے باوجود آپ لشکر اسلام میں بخوشی شریک ہوئے اور اللہ کی راہ میں سمندر کی موجیں چیرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔
شہادت
دشمن کے مقابلہ میں ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ حضرت ابو ایوب بیمار ہو گئے۔ بیماری نے ایسی شدت اختیار کی کہ آپ لڑائی میں شریک نہ ہو سکے۔ سپہ سالار لشکر آپ کی تیمار داری کے لئے آئے اور دریافت کیا کہ کوئی خواہش ہو تو
فرمائیں
آپ نے یہ ارشاد فرمایا لشکر اسلام کو میرا سلام کہنا اور مجاہدین سے کہنا کہ ابو ایوب بھی کی تمہیں وصیت ہے کہ دشمن کی سر زمین میں پیش قدمی کرتے ہوئے آخری حد تک پہنچنا اور میری لاش کو اپنے ساتھ اٹھائے لیتے جاتا اور مجھے قسطنطنیہ کی دیوار کےنزدیک دفن کرنا۔ یہ الفاظ کہے اور اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ لشکر اسلام نے رسول اللہ کے اس جلیل القدر صحابی کی تجویز منظور کرتے ہوئے دشمن پر پے در پے حملے کئے یہاں تک کہ قسطنطنیہ کی دیواروں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ، جبکہ حضرت ابو ایوب کے جسد خاکی کو اپنے ساتھ اٹھائے ہوئے تھے، دیوار قسطنطنیہ کے سائے میں ان کے لئے قبر کھود دی گئی اور بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔
اللہ تعالیٰ حضرت ابو ایوب انصاری پر رحم کرے۔ آپ نے اللہ تعالی کی راہ میں غازی کا کردار ادا کرتے ہوئے جہاد فی سبیل اللہ کی خاطر تیز طرار گھوڑوں پر اس وقت بھی سواری کی جبکہ آپ کی عمر اسی (80) سال تھی۔