صحا بہ اکرام کی تجو یز
آپ نے اپنے صحابۂ کرام سے مشورہ کیا اس سلسلہ میں ایک مشورہ یہ دیا گیا کہ نماز کا وقت ہونے پر ایک جھنڈا لہرادیا جائے – لوگ اس کو دیکھیں گے تو سمجھ جائیں گے کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے اور ایک دوسرے کو بتادیا کریں گے – لیکن حضور اکرم نے اس تجویز کو پسند نا فرمایا – پھر کسی نے کہا کہ بگُل بجادیا کریں – حضور اکرم نے اس کو بھی نا پسند فرمایا کیونکہ یہ طریقہ یہودیوں کا تھا – اب کسی نے کہا کہ ناقوس بجا کر اعلان کردیا کریں آپ نے اس کو بھی پسند نا فرمایا کیونکہ یہ عیسائیوں کا طریقہ تھا
کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ آگ جلادی جایا کرے – آپ نے اس تجویز کو بھی پسند نا فرمایا یہ طریقہ مجوسیوں کی پہچان تھا
ایک مشورہ یہ دیا گیا
ایک شخص مقرر کردیا جائے کہ وہ نماز کا وقت ہونے پر گشت لگالیا کرے ” چنانچہ اس رائے کو قبول کرلیا گیا چنانچہ حضرت بلال کو اعلان کرنے والا مقرر کردیا گیا
انہی دنوں حضرت عبداللہ بن زید نے خواب دیکھا انہوں نے ایک شخص کو دیکھا اس کے جسم پر دو سبز کپڑے تھے اور اس کے ہاتھ میں ایک ناقوس (بگُل) تھا حضرت عبداللہ بن زید فرماتے ہیں کہ میں نے اس سے پوچھا ” کیا تُم یہ ناقوس فروخت کرتے ہو اس نے پوچھا
“تم اس کا کیا کروگے “
میں نے کہا : “ہم اس کو بجا کر نمازیوں کو جمع کریں گے ” اس پر وہ بولا :
” کیا میں تمہیں اس کے لیے اس سے بہتر طریقہ نہ بتادوں “
میں نے کہا: ” ضرور بتائیے” .. اب اس نے کہا تم یہ الفاظ پکار کر لوگوں کو جمع کیا کرو “
اور اس نے اذان کے الفاظ دہرادیے – یعنی پوری اذان پڑھ کر انھیں سنادی – پھر تکبیر کہنے کا طریقہ بھی بتادیا –
صبح ہوئی تو حضرت عبداللہ بن زید آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا یہ خواب سُنایا .. خواب سُن کر آپ نے ارشاد فرمایا :
” بے شک ! یہ سچّا خواب ہے ان شاءاللہ! تم جاکر یہ کلمات بلال کو سکھادو تاکہ وہ ان کے ذریعے اذان دیں – ان کی آواز تم سے بلند ہے اور ذیادہ دل کش بھی ہے “
حضرت بلا ل کی اذان
حضرت عبداللہ حضرت بلال کے پاس آئے انھوں نے کلمات سیکھنے پر صبح کی اذان دی اس طرح سب سے پہلے اذان فجر کی نماز کے لیے دی گئی
جونہی حضرت بلال کی اذان گونجی اور حضرت عمر کے کانوں میں یہ الفاظ پڑے وہ جلدی سے چادر سنبھالتے ہوئے اُٹھے اور تیز تیز چلتے مسجد نبوی میں پہنچے- مسجد میں پہنچ کر انہیں حضرت عبداللہ بن زید کے خواب کے بارے میں معلوم ہوا تو انھوں نے عرض کیا :
” اے اللہ کے رسول اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے٬میں نے بھی بالکل یہی خواب دیکھا ہے”
حضرت عمر کی زبانی خواب کی تصدیق سن کر آپ نے ارشاد فرمایا :
“اللّٰہ کا شکر ہے “
اب پانچوں وقت کی نمازوں کے لیے حضرت بلال اذان دیتے ان پانچ نمازوں کے علاوہ کسی موقع پر لوگوں کو جمع کرنا ہوتامثلاً سورج گرہن اور چاند گرہن ہوجاتا یا بارش طلب کرنے کے لیے نماز پڑھنا ہوتی تو وہ “الصلاۃ جامعۃ ” کہہ کر اعلان کرتے تھے
اس طرح نبی اکرم کے زمانے تک حضرت بلال موذن رہے- ان کی غیر موجودگی میں حضرت عبداللہ ابن مکتوم اذان دیتے تھے
آنحضرت کے ظہور سے پہلے مدینہ منورہ کے یہودی قبیلۂ اوس اور قبیلۂ خزرج کے لوگوں سے یہ کہا کرتے تبھے :
” بہت جلد ایک نبی ظاہر ہوں گے ان کی ایسی ایسی صفات ہوں گی(یعنی حضور کی نشانیاں بتایا کرتے تھے) ہم ان کے ساتھ مل کر تم لوگوں کو سابقہ قوموں کی طرح تہس نہس کردیں گے- جس طرح قوم عاد اور قوم ثمود کو تباہ کیا گیا-ہم بھی تم لوگوں کو اسی طرح تباہ کردیں گے “
جب نبی پاک کا ظہور مبارک ہوگیا تو یہی یہود حضور پاک کے خلاف ہوگئے اور سازشیں کرنےلگے
جب اوس اور خزرج کے لوگ اسلام کے دامن میں آگئے تو بعض صحابہ نے ان یہودیوں نے کہا:
” اے یہودیو! تم تو ہم سے کہا کرتے تھے کہ ایک نبی ظاہر ہونے والے ہیں ان کی ایسی ایسی صفات ہوں گی-ہم ان پر ایمان لاکر تم لوگوں لو تباہ و برباد کردیں گے لیکن اب جبکہ ان کا ظہور ہوگی ہے تو تم ان پر ایمان کیوں نہیں لاتے-تم تو ہمیں نبی کریم کا حلیہ تک بتایا کرتے تھے
صحابۂ کرام نے جب یہ بات کہی تو یہودیوں میں سلام بن مشکم بھی تھا- یہ قبیلہ بنی نضیر کے بڑے آدمیوں میں سے تھا اس نے ان کی یہ بات سن کر کہا :
” ان میں وہ نشانیاں نہیں ہیں جو ہم تم سے بیان کرتے تھے “
اس پر اللّٰہ تعالٰی نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 89 نازِل فرمائی
ترجمہ : اور جب انہیں کتاب پہنچی(یعنی قرآن) جو اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور اس کی بھی تصدیق کرنے والی ہے جو پہلے سے ان کے پاس ہے یعنی تورات٬ حالانکہ اس سے پہلے وہ خود (اس نبی کے وسیلے سے) کفار کے خلاف اللّٰہ سے مدد طلب کرتے تھے٬پھر وہ چیز آپہنچی جس کو وہ خود جانتے پہچانتے تھے (یعنی حضور نبی کریم کی نبوت)تو اس کا صاف انکار کر بیٹھے بس اللہ کی مار ہو ایسے کافروں پر
اس بارے میں ایک روایت میں ہے کہ ایک رات حضور نبی کریم نے یہودیوں کے ایک بڑے سردار مالک بن صیف سے فرمایا:
“میں تمہیں اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ جس نے موسی پر تورات نازل فرمائی،کیا تورات میں یہ بات موجود ہے کہ اللہ تعالٰی موٹے تازے”حبر” یعنی یہودی راہب سے نفرت کرتا ہے،کیونکہ تم بھی ایسے ہی موٹے تازے ہو،تم وہ مال کھا کھا کر موٹے ہوئے جو تمہیں یہودی لا لا کر دیتے ہیں-“
یہ بات سن کر مالک بن صیف بگڑ گیا اور بول اٹھا:
“اللہ تعالٰی نے کسی بھی انسان پر کوئی چیز نہیں اتاری”
گویا اس طرح اس نے خود حضرت موسی پر نازل ہونے والی کتاب تورات کا بھی انکار کردیا اور ایسا صرف جھنجھلاہٹ کی وجہ سے کہا دوسرے یہودی اس پر بگڑے-انھوں نے اس سے کہا:
“یہ ہم نے تمہارے بارے میں کیا سنا ہے”
جواب میں اس نے کہا:
محمد نے مجھے غصہ دلایا تھا بس بسں نے غصہ میں یہ بات کہہ دی”
یہودیوں نے اس کی اس بات کو معاف نہ کیا اور اسے سرداری سے ہٹادیا-اس کی جگہ کعب بن اشرف کو اپنا سردار مقرر کیا