اگر یہ دنو ں با تیں ہو تی تو پھر معراج کے واقعے کی کیاخصو صیت تھی خواب میں تو عا م آدمی بھی بہت کچھ دیکھ لیتا ہے اصل حصوصیت تو یہ ہے کہ آپ ﷺ جسم سمیت آسما نو ں پر تشر یف لے گئے لہذا گمراہ لو گو ں کے بہکا رے میں مت آئیں اور پھر یہ بات بھی ہے کہ اگر معراج صرف خوا ب ہو تا یا معراج صرف روح کو ہوتی تو مشرکین مکہ مذاق نہ اڑا تے جب کہ انہو ں نے ما ننے سے انکا ر کیا اور مذاق بھی اڑا یا خو ا ب میں دیکھیں کسی واقعے میں بھلا کو ئی مذاق کیو ں اڑا ئے گا
مسجد اقصی میں نما ز پڑھی
معراج کے با رے میں اس مسلے میں بھی اختلا ف پا یا جا تا ہے کہ نبی کر یم ﷺ نے اللہ پا ک کو دیکھا کہ نہیں اس معا ملے میں دنو ں طر ح کی احا دیث مو جو د ہیں اس معا ملے میں بہتر یہ کہ ہم خا مو شی اختیا ر کرلیں کیو نکہ یہ ہما رے اعتقاد کا مسلہ نہیں ہے نہ ہم سے قیا مت کے دن یہ سوال پو چھا جا ئے گا
حضور اکرم ﷺ اللہ پا ک سے ہم کلا م ہو نے کے بعد آسما نو ں سے واپس زمین پر تشریف لے آئے جب اپنے بستر پر پہنچے تو وہ اسے طر ح گر م تھا جیسے چھو ڑ کر گئے تھے یعنی معراج کا یہ عجیب واقعہ اور اتنا طو یل سفر صرف ایک لمحے میں پو را ہو گیا یو ں سمجھیں کہ اللہ پا ک نے کا ئنا ت کے وقت کی رفتا ر کو روک دیا جس کے با عث یہ معجزہ نہایت تھو ڑے وقت میں پو را ہو گیا
معراج کی رات کے بعد جب صبح ہو ئی اور سورج ڈھل گیا تو جبرائیل تشر یف لا ئے انہو ں نے اما مت کر کے آپ ﷺ کو نما ز پڑھا ئی تا کہ نمازوں کے اوقات اور نما زوں کی کیفیت معلو م ہو جا ئے معراج سے قبل آپ ﷺ صبح شام دو دو رکعت نما ز ادا کر تے تھے اور رات میں قیا م کرتے تھے لہذا آپ ﷺ کا پا نچ نما زوں کی کیفیت اس وقت تک معلو م نہیں تھی
جبر ائیل کی آمد پر حضؤر اکرم ﷺ نے اعلا ن فر ما یا کہ سب لو گ جمع ہو جا ئیں چنا نچہ آپ ﷺ نے جبر ائیل کی اما مت میں نما ز ادا کی اور صحا بہ اکرام نے بھی آپ کی اما مت میں نما ز ادا کی
یہ ظہر کی نما ز تھی اسی روز اس کا نا م ظہر رکھا گیا اس لئے یہ پہلے نما ز تھی جس کی کیفیت ظا ہر کی گئی تھی چو نکہ دو پہر کو عربی میں ظہیرہ کہتے ہیں اس لئے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ نا م اس بنیا د پر رکھا گیا ہو کیو نکہ یہ نما ز دوپہر کو پڑھی جا تی ہے قر آن ک کر یم آواز سے نہیں پڑھا
اس طر ح عصر کا وقت ہو اتو عصر کی نما ز ادا کی سورج غروب ہو ا تو مغرب کی نما ز ادا کی یہ تین رکعت کی نما ز تھی اس میں پہلی دو رکعتو ں میں آواز سے قرات کی گئی آخری رکعت میں قرات بلند آواز میں نہیں کی گئی اس نما ز میں بھی ظہر اور عصر کی نماز کی طر ح حضرت جبرائیل آگے تھے
آپ ﷺ انکی اما مت میں نما ز اد اکر رہےتھے اور صحا بہ نبی کر یم ﷺ کی اما مت میں اس کا مطلب ہے حضور اکرم ﷺ اس وقت مقتدی بھی تھے او ر اما م بھی رہا یہ سوال کہ نما ز کہا ں پڑھی گئی تو اس کا جواب ہے کہ خا نہ کعبہ میں پڑھی گئیں اور آپ ﷺ کا رخ بیت المقد س کی طر ف تھا کیو نکہ اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا حضور اکرم ﷺ جب تک مکہ معظمہ میں رہے اسی کی سمت منہ کر کے نما ز ادا کر تے رہے
جبرائیل سلا م نے پہلے دن نما زوں کے اول وقت میں یہ نما زیں پڑھا ئیں اور دوسرے دن آخری وقت میں تا کہ معلو م ہو جا ئے نما زوں کے اوقات کہا ں سے کہا ں تک ہیں اس طر ح یہ پا نچ نما زیں فر ض ہو ئیں اور ان کے پڑھنے کا طر یقہ بھی آسما ن سے نا زل ہو ا آج کچھ لو گ کہتے نظر آتے ہیں نما ز کا کو ئی طر یقہ قر آن سے ثا بت نہیں لہذا نما ز کسی بھی طر یقے سے پڑھی جا سکتی ہے نما ز کا طر یقہ بھی آسما ن سے نا زل ہو ا اور ہمیں نماز اس طر ح پڑھنی ہو گی جس طر ح نبی کر یم ﷺ اور صحا بہ اکرام پڑھتے رہے
یہ بھی ثا بت ہو گیا کہ فر ض نما زیں پا نچ ہیں حد یث کے منکر پا نچ نما زوں کا انکا ر کر تے ہیں وہ صرف تین فر ض نما زوں کے قائل ہیں لو گو ں کو دھو کہ دینے کے لئے کہتے ہیں کہ قر آن میں صرف ےین نما زوں کا حکم ہے اول تو ان کی یہ با ت ہی جھو ٹ دوسرے یہ کہ حدیث سے پا نچ نما زیں ثا بت ہیں تو کسی مسلمان کے لئے ان سے انکا ر کی گنجا ئش نہیں ہے پا نچ نما زوں کی حکمت کے با رے میں علما ء نے لکھا ہے کہ انسا نو ں کے اند ر اللہ پا ک نے پا نچ حواس پا نچ حسیں رکھی ہیں انسان گنا ہ بھی انہیں حسیو ں کے ذریعے کر تا ہے ( یعنی آنکھ ،کا ن ،نا ک ،منہ ، اعضا و جوارح یعنی ہا تھ پا وں ) لہذا نما زیں بھی پا نچ مقرر کی گئیں تا کہ ان پا نچ نما زوں کے ذریعے دن اور رات میں جو گنا ہ انسا ن سے ہو جا ئیں وہ ان پا نچ نما زوں کے ذریعے دھل جا ئیں اس کے علا وہ بھی بے شما ر حکمتیں ہیں