حضرت عبا س ؑ فر ما تے ہیں اگر ابو جہل اپنے گر وہ کو بلا تا تو عذاب کے فر شتے اسے پکڑ کر تہس نہس کر دیتے ایک روز ابو جہل حضور اکر م ﷺ کے سا منے آیا آپ ﷺ سے مخا طب ہو ا آپ ﷺ کو معلو م ہے کہ میں بطحا والو ں کا محا فظ ہو ں اور میں یہا ں ایک شریف ترین شخص ہو ں اس وقت اللہ پا ک سے سو رہ دخا ن کی آ یت 49 نا زل فر ما ئی
ترجمہ: چکھ تو بڑا معزز مکرم ہے آیت کا یہ ترجمہ دو زخ کے فرشتے ابو جہل کو ڈالتے وقت پھٹکا رتے ہو ئے کہیں گے
ابو جہل اور اُس کی بیو ی کے مظا لم
ابو لہب بھی حضور اکر م کی ایذا رسا نی میں آگے آگےتھا نبی کر یم ﷺ کی تبلیغ میں ر کا وٹیں ڈالتا تھا آپ ﷺ کو برا بھلا کہتا تھا اس میں اس کی بیو ی ام جمیل بھی اس کت سا تھ تھیں وہ جنگل سے کا نٹے دار لکڑیاں کا ٹ کر لا تیں اور نبی کر یم ﷺ کے راستے میں بچھا دیتی اس پر اللہ پا ک نے سو رہ لہب نا زل فر ما ئی اس میں ابو لہب کے ساتھ اس کی بیو ی کو بھی عذاب کی خبر دی گئی وہ غصے میں آگ بگو لہ ہو گئی پتھر ہا تھ میں پکڑے اور آپ ؤ کی طر ف بڑھی اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق تھے انہو ں نے ابو لہب کی بیو ی کو آتے دیکھا تو کہا اللہ کے رسول ﷺ یہ عورت بہت زبا ن دراز ہے اگر آپ ﷺ یہا ں ٹھہرے تو اس کی بد زبا نی سے آپ ﷺ کو تکلیف پہنچے گی
ان کی با ت سن کر نبی کریم ﷺ نے فر ما یا ابو بکر فکر نہ کر و وہ مجھے نہ دکھ سکے گی اتنے میں ام جمیل نزدیک پہنچی اسے وہا ں ابو بکر کی نظر آئے وہ بو لی ابو بکر تمھا رے دوست نے مجھے ذلیل کیا ہے کہا ں ہے تمھا را دوست جو شعر پڑھتا ہے
کیا تمھیں میرے سا تھ کو ئی نظر نہیں آرہا کیو ں کیا با ت ہے مجھے تو تمھا رے ساتھ کو ئی نظر نہیں آرہا انہوں نے پو چھا تم ان کے ساتھ کیا کر نا چا ہتی ہو جو اب میں اس نے کہا میں یہ پتھر اس کے منہ پر ما رنا چا ہتی ہو ں اس نے میری شا ن میں نہ زیبا شعرکہے وہ سو رہ اللہب کی آیا ت کو شعر سمجھ رہی تھی
اس پر انہوں نے کہا نہیں اللہ کی قسم وہ شا عر نہیں ہیں وہ تو شعر کہنا جا نتے ہی نہیں نہ ہی انہوں نے تمھیں ذلیل کیا ہے یہ سن کر وہ واپس لو ٹ گئی بعد میں ابو بکر نے آپ ﷺ سے پو چھا اے اللہ کے رسول ﷺ وہ آپ ﷺ کو دیکھ کیو ں نہیں سکی
آپ ﷺ نے ارشا د فر ما یا ایک فر شتے نےمجھے اپنے پروں میں چھپا لیا تھا ایک روایت کے مطا بق آپ ﷺ نے یہ جواب ارشا د فر ما یا تھا میرےا ور اس کے درمیا ن ایک آڑ پیدا کر دی گئی تھی
رسول اللہ کی صا حبزادیو ں پر ظلم
ابو لہب کے ایک بیٹے کا نا م عتبہ تھا اور دوسرے کا نا م عتیبہ تھا اعلا ن نبو ت سے پہلے نبی کر یم ﷺ نے اپنی دنو ں بیٹیو ں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثو م کا نکا ح ابو لہب کے دونو ں بیٹو ں سے کر دیا تھا ابھی رخصتی نہیں ہو ئی تھی اسلا م کا آغا ز ہو ا اور سورہ لہب نا زل ہو ئی تو ابو لہب نے غصے میں آکر اپنے بیٹوں سے کہااگر تم محمد کی بیٹوں کی طلا ق نہیں دو گے تو میں تمھا را چہرہ نہیں دیکھوں گا
چنا نچہ ان دونو ں نے طلا ق دے دی دیکھا جا ئے تو نبی کر یم ﷺ کی دونو ں بیٹو ں کے لئے اس میں حکمت تھی گو یا اللہ پا ک نے چا ہا کہ یہ پا ک صا حبزادیا ں ابو لہب کے گھر نہ جا سکیں یہ رشتہ اسلا م دشمنی کی بنیا د پر ختم کیا گیا گو یا آپ دونو ں نبی کر یم ﷺ کی صا حبزادیا ں تھیں اس لئے یہ قدم اٹھا یا گیا
رسول اللہ کی شان میں گستا خی
اس مو قع پر عتیبہ نبی کر یم ﷺ کی خد مت میں حا ضرہو ا اور اس نے آپ ﷺ کی شا ن میں گستا خی کی آپ ﷺ صا حبزادیو ں کی وجہ سے پہلے ہی غمگین تھے اس لئے آپ ﷺ نےاس کے حق میں دبد دعا فر ما ئی
اے اللہ اس پر اپنے کتو ں میں سے ایک کتا مسلط فر ما دے
عتیبہ یہ بد دعا سن کر وہاں سے لو ٹ آیا اس کےبعد با پ ابو لہب کو سا را حا ل سنا یا اس کے بعد دنو ں با پ بیٹا ایک قا فلے کے ساتھ ملک شا م کی طر ف روانہ ہو گئے راستے میں یہ لو گ ایک جگہ ٹھہرے وہا ں قریب ہی ایک را ہب کی عبا دت گا ہ تھی راہب اس کے پا س آیا اس نے انہیں بتا یا اس علا قے میں جنگلی درندے رہتے ہیں
ابو لہب یہ سن کر خو ف ذدہ ہو گیا نبی کر یم ﷺ کی بد دعا یا د آگئی اس نے قا فلے والو ں نے کہا کہ تم لو گ میری حیثیت سے با خبر ہو اور یہ بھی جا نتے ہو کہ میرا تم پر کیا حق ہے
انہو ں نے ایک زبا ن ہو کر کہا کہ بے شک ہمیں معلو م ہے ابو لہب بو لا تم پھر میری مدد کر ومیں محمد کی دعا کی وجہ سے خوف ذدہ ہو ں اس لئے کہ تم اپنا سا ما ن اس عبا دت گا ہ کی طرف رکھ کر میرے بیٹے کا بستر لگا دو اور اس کے چا رو ں طر ف تم اپنے بستر لگا لو ان لو گو ں نے ایسا ہی کیا انہو ں نے اپنے چا رو ں طر ف اپنے اونٹو ں کو بھی بیٹھا اس طر ح عتیبہ ان کے عین درمیا ن آگیا