مشو رہ سب کو پسند آیا ، چنا نچہ یہ لو گ مکہ مظعمہ میں آئے اور ابع مطلب سے ملے انہیں سلا م کیا پھر ان سے کہا اے ابومطلب ہم کئی سال سے خشک سالی کا شکا ر ہیں ہمیں آپ کی بر کت کے با رے معلو م ہو ا ہے ، اس لئے مہر با نی فر ما کے آپ ہما رے لیے بھی دعا کر یں اس لئے کہ اللہ نے اپ کی دعا سے قر یش کو با رش عطا کی ان کی با ت سن کر ابو مطلب نے کہا اچھی با ت ہے میں کل میدان عر فا ت میں آپ لو گو ں کے لئے بھی دعا کر وں گا دوسرے دن صبح سویرے ابو مطلب میدان عر فات کی طرف روانہ ہو ئے ان کے سا تھ دوسرے لو گو ں کے علا وہ ان کے بیٹے اور اللہ کے رسو ل ﷺ بھی تھے ور فا ت کے میدا ن میں ابو مطلب کے لئے ایک کر سی بطھا ئی گئی وہ اس پر بیٹھ گئے ، نبی کر یم ﷺ کو انہو ں نے گو د میں بیٹھا لیا ، پھر انہو ں نے ہا تھ اُ ٹھا کر یو ں دعا کی اے اللہ ، چمکنے والی بجلی کے پروردگا ر ، اور گڑ کنے والی گرج کے مالک ، پا لنے والو ں کے پا ل نے والے ، اور مشکلا ت کو آسان کر نے والے یہ قبیلہ کیس اور قبیلہ مضر کے لو گ ہیں ، یہ بہت پر یشا ن ہیں ، ان کی کمر یں جھک گئی ہیں ، یہ تجھ سے اپنی لا چا ری اور بے کسی کہ فر یا د کر تے ہیں اور جا ن و ما ل کی بر با دی کی شکا یت کر تے ہیں پس اے اللہ ، ان کے لئے خو ب بر سنے والے با دل بھیج دےا ور آسما ن سےا ن کے لئے رحمت عطا فر ما تا کہ ان کی زمینیں سر سبز ہو جا ئیں اور ان کی تکلیف دور ہو جا ئے ابو مطلب ابھی یہ دعا کر ہی رہے تھے کہ ایک سیا ہ با دل اُٹھا ، عبدا لمطلب کی طرف آیا اور اس کے بعد اس کا رخ قبیلے کیس اور بنو مضر کی بستیو ں کی طرف ہو گیا یہ دیکھ کر ابو مطلب نے کہا اے گروہ قر یش اور مضر جا ؤ تمہیں سرا بی حا صل ہو گئی چا نچہ یہ لو گ جب اپنی بستیو ں میں پہنچے تو وہا ں با رش شروع ہو چکی تھی آپ سات سا ل کے ہو چکے تھے کہ آپ کی آنکھیں دکھنے کو آگئیں مکہ میں آنکھو ں کا علا ج کر وا یا گیا لیکن آفا قہ نہ ہو ا عبد المطلب سے کسی نے کہا عکا ظ کے با زا ر میں ایک راہب رہتا ہے وہ آنکھو ں کی تکلیف کا علا ج کر تا ہے عبد المطلب آپ کو اس کے پا س لے گئے اس کی عبا دت گا ہ کا دروازہ بند تھا انہو ں نے اسے آواز دی راہب نے کو ئی جو اب نہ دیا اچا نک عبا دت گا ہ میں شدید زلزلہ آیا راہب ڈر گیا کہ کہیں عبا دت خا نا اس کے اوپر نہ گر پڑ ے اس لئے ایک دم با ہر نکل آیا اب اس نے آپ کو دیکھا تو چو نک اٹھا اس نے کہا اے عبد المطلب یہ لڑ کا اس امت کا نبی ہے اگر میں با ہر نا نکل آتا تو یہ عبا دت گا ہ ضرور گر پڑ تی اس لڑ کے کو فو رن واپس لے جا ؤ اور اس کی حفا ظت کرو کہیں یہو دیو ں یا عیسا یو ں میں سے کو ئی اسے قتل نہ کر دے پھر اس نے کہا اور رہی با ت ان کی آنکھو ں کی ، تو آنکھو ں کی دعا تو خو د ان کے پا س مو جو د ہے ابو مطلب یہ سن کر حیرا ن ہو ئے اور بو لے ان کے اپنے پا س ہیں ، میں سمجھا نہیں ، ہا ں ان کا لعا ب دہن ان کی آنکھو ں میں لگا ئیں انہو ں نے ایسا ہی کیا ، آنکھیں فو رن ٹھیک ہو گئیں پو را نی آسما نی کتا بو ں میں آپ کی بہت سی نشا نیا ں لکھیں ہو ئی تھیں اس کی تفصیل بہت دلچسپ ہے ۔
یمن میں ایک قبیلہ امیر تھا وہا ں ایک شخص سیف بن یزن تھا وہ سیف حمیر ی کہلا تا تھا کسی زما نے میں اس کے با ب دادا اس ملک پر حکو مت کر تے تھے لیکن پھر حبشیو ں نے یمن پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کر لیا وہا ں حبشیو ں کی حکو مت شروع ہو گئی 70 سا ل تک یمن حبشیو ں کے قبضے میں رہا جب یہ سیف بڑا ہو ا تو اس کے اندر اپنے با پ دادا کا ملک آزاد کر نے امنگ پیدا ہو ئی ، چنا نچہ اس نے ایک فو ج تیا ر کی اس فو ج کے ذ ر یعے حبشیو ں پر حملہ کیا اور انہیں یمن سے بھگا دیا اس طرح وہ با پ دادا کے ملک کو آزا د کر وانے میں کا میا ب ہو گیا وہا ں کا با د شاہ بن گیا یہ یمن عر ب کا علا قہ تھا جب اس پر حبشیو ں نے قبضہ کیا تھا تو عر بو ں کو بہت افسو س ہو ا 70 سال بعد جب یمن کے لو گو ں نے حبشیو ں کو نکا ل با ہر کیاتو عر بوں کو بہت خو شی ہو ئی ان کی خو شی کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ انہی حبشیو ں نے ابر ہہ کے سا تھ مکہ پر چڑھا ئی کی تھی چا رو ں طرف سے عر بو ں کے وفد سیف کو مبا رک با د دینے کے لیے آنے لگے قر یش کا بھی ایک وفد مبا رک دینے کے لیے گیا اس وفد کے سر دا ر عبد المطلب تھے یہ وفد جب یمن پہنچا تو سیف اپنے محل میں تھا اس کے سر پر تا ج تھا سا منے تلوا ر رکھی تھی اور حمیری سردار اس کے دائیں با ئیں بیٹھے تھے سیف کو قر یس کے وفد کی امد کے با رے میں بتا یا گیا ، اسے یہ بھی بتا یا گیا کہ یہ لو گ کس رتبے کے ہیں اس نے ان لو گو ں کو آنے کی اجا زت دے دی یہ وفد دربا ر میں پہنچا عبد المطلب آگے بڑ ھ کر اس کے سا منے جا کھڑ ے ہو ئے انہو ں نے اب ت کر نے کی اجا زت چا ہی سیف نے کہا اگر تم با دشا ہو ں کے سا منے بو لنے کے آداب سے واقف ہو تو ہما ری طرف سے اجا زت ہے