لڑ ائیو ں کے خا تمہ کی تجو یز :
ان مسلسل لڑا ئیو ں کی وجہ سے پورا عر ب ہی اس علا وے ، جسے یثرب کہتے تھے ، سے تنگ تھا ۔ اور تواور اوس وخز رج والے خو د بھی پر یشا ن تھے مگر مسئلہ یہ تھاکہ بلی کے گلے یں گھنٹی کو ن با ندھےیعنی آگے بڑ ھ کر مستقل لڑا ئی کا خا تمہ کو ن کر ے ؟
جو بھی ایسا کر تا اسے بعد میں بذدل کہا جا تا کہ لڑا ئی سے بھا گ گیا ہے ۔ حا لا نکہ چا ہتے دو نو ں ہی تھے کہ لڑ ائی ختم، ہو جا ئے ۔
اب ہو ا کچھ یو ں کے اوس وخز رج کے بڑ ے بڑ ے سر دار بیٹھے اور انہو ں نے فیصلہ کیا کہ جب بی لڑ ائی ہو تی ہے اس کی کو ئی و جہ ضر ور ہو تی ہے ۔ لڑائی سے پہلے کوئی ایسی جگہ ہو جہا ں اس سبب کو پیشش کیا جا ئے اور وہیں سے فیصلہ کر وا لیں تا کہ جو ظلم کر ے صر فاسے ہی فو ری سزا ملے اور اس کی وجہ سے اس کی پو ری قوم بچ جا ئے ۔
با بے عبد اللہ کی سرداری کی کہا نی :
یہ فیصلہ سب کو پسند آیا ۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ وہ کو ن سی ایسی متفقہ شخصیت ہوجس کا فیصلہ سب ہی ما ن لیں ۔ بہت سو چ بچا ر کے بعد خزرج قبیلے کے ایک با بے ، جس کا نا م عبداللہ تھا ، کو ہو رے یثر ب کا متفقہ سردار بنا نے کا فیصلہ ہو گیا ۔
سب نے با بے عبد اللہ کو مبارکباد دی اور یہ طے ہوا کہ چند مہینے بعد ایک بہت بڑا میلا لگنا ہے تو اس میں با بے عبد اللہ کی تا ج پو شی کی جا ئےتا کہ سا رے عر ب کو پتا چل جا ئے ہما را متفقہ سردار با با عبد اللہ ہے ۔ لہذا ان دنو ں با با بڑا خو ش خو ش رہنے لگا مگر اسے کیا پتا تھا کہ اس کی خو شی چند دنو ن کی مہما ن ہے ۔
ہو ا یو ں کہ جب نبی کر یم ﷺ اس علا قے میں آ گئے تو یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ آپ ﷺ وہ اں مو جو د ہو ں اور علا قے کا سردار کو ئی اور ہو ؟
لہذا سب مسلما نو ن نے آپ ﷺ کو ہی سر دا ر ما نا ۔
با با اس با ت پر برا نا را ض تھا ۔ اس نے آپ ﷺ کی مخا لفت کر نا شرو ع کر دی ۔
لیکن جب غزوہ بدر میں مشر کین کو بہت بر ی طرح شکست ہو ئی تو اس کو پتا چل گیا کہ اب اس کی دال نہیں گلے گی ۔ اس نے ظا ہر ی طو ر پر اسلا قبو ل کر لیا ۔
بابے کی چا ل با زیاں :
اسکی حر کتو ں کا سب کو ہی پتا تھاکیو نکہ وہ ہر وقت مسلما نو ں کے خلا ف سا زیشیں کر تارہتا۔ سب مسلما ن جا ن گئے کہ یہ سب سے بڑا منا فق ہے عر بی میں سب سے بر ے منا فق کو ر ئیں المنا فقین کہا جا تا ہے ۔ جب با بے کو یقین ہو گیا کہ سب میرے با رے میں شک کر تے ہیں تو اب اس نے یہ کر نا شروع کر دیا کہ نما ز کے بعد اونچی اونچی کہتا کہ محمد ﷺ ہی سچے رسو ل ہیں ۔
سب لو گو ں کو یہ پتا تھا کہ یہ اوپر اوپر سے لگا ہے ۔
مسجد کے نا پ پر سازش کی کہا نی :
اس زما نے میں ہر مسلما ن پنچ وقت کی نماز پڑ ھتا تھا بلکہ تہجد بھی پڑ ھتا تھا ۔
” آج مسلما نو ں کو پتا نہیں کیا ہو گیا ہے وہ نماز سے بھا گتے ہیں اور نماز نہ پڑ ھنے کے بہا نے لگا تے ہیں ۔ اللہ پا ک ہمیں سنت کے مطا بق پا نچ وقت کا پکا نماز ی بنا ئے “۔ آمین
لہذا جو خو د کو مسلما ن کہتا ہو اور مسجد میں نا آئے اس کے با رے لو گ شک کر تے کہ یہ مسلما ن نہیں رہا ۔
اسی لئے با بے اور اس کا ٹو لا نماز پڑ ھنے مسجد آتا لیکن یہ کا م انہیں برا مشکل لگتا ۔با لخصو ص فجر اورعشاءیں نیندقربان کرنا اورعصرکےوقت کاروبارچھوڑ کرمسجد جانے سے توانکی جان جاتی تھی ۔
نبی کریمﷺ نےان نمازوں کے متعلق فر ما یا کہ منافقوںپرفجراورعشاءکی نماز سےزیا دہ اور کو ئی نما ز بھا ری نہیں ۔
لہذاانہوں نے یہ منصوبہ بنایاکہ ایک جگہ لے کر آپ ﷺکوکہیں گےکہ آپ ﷺ یہا ں ایک نماز پڑ ھیں ۔ پھر وہیں آیا کر یں گے ۔ مسلما نو ں کے خلا ف سا زشیں بھی نہیں کیا کر یں گے ۔ اگر کو ئی پو چھے کہ تم مسجد نبو ی ﷺ میں کیو ں نہیں آتے تو کہیں گے کہ اس مسجد کا فتتا ح بھی تو آپ ﷺ نے ہی کیا ہے ۔ اگر یہ مسجد غلط ہو تی تو یہا ن آ کر خو د نماز کیو ں پڑ ھی ؟
اس پلا نگ پر عمل کر نے کے لئے انہو ں نے جگہ خر ید کر آپ ﷺ کہ یہا ں آنے کی دعوت دی ۔
مگر اللہ پا ک نے آپ ﷺ کو سب با ت بتا دی اور حکم دیا کہ اس مسجد کے نا م پر منا فقین نے جو سا زشو ں کے لئے میٹنگ ہا ل بنا یا ہے اسے ختم کر دیا جا ئے ۔ اس طرح اسے بھی ختم کر دیا گیا ۔ اسی وجہ سے اسے مسجد ضرار کہتے ہیں یعنی مسلما نو ں کے خلا ف سا زشیں کر نے کے لئے بنا یا جا نے والا ہا ل جسے مسجد کا نا م دیا گیا ۔
الغر ض با بے کی کو ئی ساز ش کا میا ب نہ ہو ئی۔