You are currently viewing وہ نہ آئے تو ہوا بھی نہیں آیا کرتی

وہ نہ آئے تو ہوا بھی نہیں آیا کرتی

وہ نہ آئے تو ہوا بھی نہیں آیا کرتی
اس کی خوشبو بھی اکیلی نہیں آیا کرتی
ہم تو آنسو ہیں ہمیں خاک میں مل جانا ہے
میتوں کے لیے ڈولی نہیں آیا کرتی
بسترِ ہجر پہ سویا نہیں جاتا اکثر
نیند آتی تو ہے، گہری نہیں آیا کرتی
علی الاعلان کیا کرتا ہوں سچی باتیں
چور دروازے سے آندھی نہیں آیا کرتی
صرف رنگوں سے کبھی رس نہی ٹپکا کرتا
کاغذی پھول پہ تتلی نہیں آیا کرتی
عشق کرتے ہو تو آلودۂ شکوہ کیوں ہو
شہد کے لہجے میں تلخی نہیں آیا کرتی
موت نے یاد کیا ہے کہ مظفر اس نے
اپنی مرضی سے تو ہچکی نہیں آیا کرتی

Writer: Muzaffar Warsi