You are currently viewing وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ

اور ہم نے آپکوتمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔

اللہ تبارک و تعالٰی مجید فرقان حمید میں فرماتے ہیں:

اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا

یعنی ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! ص عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔

تاجدارِ رسالت حضرت محمد تمام انبیاء و رُسل ملائکہ جن و انس حیوانات نباتات جمادات سب کیلئے رحم ہیں کوئی بھی چاہے وہ مومن ہو یا کافر آپ کی ہستی اُس کے لئے باعث رحمت ہی ہے خواہ وہ معاملات دینی ہوں یہ دنیاوی آپ کی تعلیمات باعث رحمت ہی ہیں الغرض دنیا میں جتنی چیزیں داخل ہیں ، سیّدُالانبیاء ان سب کے لئے رحمت ہیں ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس کا رحمت ہونا عام ہے، ایمان والے کے لئے بھی اور اس کے لئے بھی جو ایمان نہ لایا ۔ مومن کے لئے تو آپ دنیا و آخرت دونوں میں رحمت ہیں اور جو ایمان نہ لایا اس کے لئے آپ دنیا میں رحمت ہیں کہ آپ کی بدولت اس کے دُنْیَوی عذاب کو مُؤخَّر کر دیا گیا اور اس سے زمین میں دھنسانے کا عذاب، شکلیں بگاڑ دینے کا عذاب اور جڑ سے اکھاڑ دینے کا عذاب اٹھا دیا گیا۔( خازن، الانبیاء، تحت ال آیت۰۷، ۳ / ۲۹۷)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عالَم ماسوائے اللہ کو کہتے ہیں جس میں انبیاء وملائکہ سب داخل ہیں ۔ تو لاجَرم (یعنی لازمی طور پر) حضور پُر نور، سیّد المرسَلین ان سب پر رحمت و نعمت ِربُّ الارباب ہوئے ، اور وہ سب حضور کی سرکارِ عالی مدار سے بہرہ مند وفیضیاب ۔ اسی لئے اولیائے کاملین وعلمائے عاملین تصریحیں فرماتے ہیں کہ’’ ازل سے ابد تک ،ارض وسماء میں ، ابتداء اور آخرت میں،دین و دنیا میں ، روح وجسم میں ، چھوٹی یا بڑی ، بہت یا تھوڑی ، جو نعمت ودولت کسی کو ملی یا اب ملتی ہے یا آئندہ ملے گی سب حضور کی بارگاہ ِجہاں پناہ سے بٹی اور بٹتی ہے اور ہمیشہ بٹے گی۔(فتاوی رضویہ، رسالہ: تجلی الیقین، ۳۰ / ۱۴۱)

اور فرماتے ہیں’’حضور اقدس   رحمۃٌ لِّلْعالَمین بنا کر بھیجے گئے اور مومنین پر بالخصوص کمال مہربان ہیں ، رؤف رحیم ہیں ، ان کامشقت میں پڑنا ان پرگراں ہے، ان کی بھلائیوں پرحریص ہیں ،جیسے کہ قرآن عظیم میں ارشاد ہے:

’’لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۲۸)

(ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت خواہاں، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔)

 تمام گنہگاروں کی شفاعت صرف اور صرف انہی کے واسطے سے کی جائے گی

ترجمۂ : اور اے حبیب!اپنے خاص غلاموں اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو۔ (سورۂ محمد:۱۹)

 آیت’’وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘ اور عظمت ِمصطفٰی :

یہ آیتِ مبارکہ تاجدارِ رسالت کی عظمت و شان پر بہت بڑی دلیل ہے، یہاں اس سے ثابت ہونے والی دو عظمتیں ملاحظہ ہوں :

١ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیّد المرسَلین مخلوق میں سب سے افضل ہیں ۔ چنانچہ امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں ’’جب حضور انور تمام عالَمین کے لئے رحمت ہیں تو واجب ہوا کہ( اللہ تعالیٰ کے سوا) تمام مخلوقات سے افضل ہوں

 سرکارِ دو عالَم کوتمام جہانوں کے لئے خواہ وہ عالَمِ ارواح ہوں یا عالَمِ اجسام ، ذوی العقول ہوں یا غیر ذوی العقول سب کے لئے عمومی مکمل اور جامع رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے اور جو تمام عالَموں کے لئے رحمت ہو تو لازم ہے کہ وہ تمام جہان سے افضل ہو

muhammad-glory-chalo-masjid-com

حضور پُر نور دونوں جہاں کی سعادتیں حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں کیونکہ جو شخص دنیا میں آپ پر ایمان لائے گا اور آپ کی اطاعت و پیروی کرے گا وہ دونوں جہاں میں آپ کی رحمت سے مستفیذ ہو گا اور وہ دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرے گا اور جو آپ پر ایمان نہ لایا تو وہ دنیا میں تو آپ کی رحمت کے صدقے عذاب سے بچ جائے گا لیکن آخرت میں آپ کی رحمت سے فیضیاب نہ ہو سکے گا۔ امام فخرالدین رازی فرماتے ہیں ’’لوگ کفر ،جاہلیت اور گمراہی میں مبتلا تھے ، اہلِ کتاب بھی اپنے دین کے معاملے میں حیرت زدہ تھے کیونکہ طویل عرصے سے ان میں کوئی نبی تشریف نہ لائے تھے اور ان کی کتابوں میں بھی (تحریف اور تبدیلیوں کی وجہ سے) اختلاف رو نما ہو چکاتھا تو اللہ تعالیٰ نے اس وقت اپنے پیارے حبیب کو مبعوث فرمایا جب حق کے طالب کو کامیابی اور ثواب حاصل کرنے کی طرف کوئی راہ نظر نہ آ رہی تھی،چنانچہ آپ نے لوگوں کو دعوت حق دی اور ان کے سامنے صحیح راہ کو بیان کیا اور ان کے لئے حلال و حرام جائز ناجائز کے اَحکام مقرر فرمائے ،پھر اس رحمت سے(حقیقی) فائدہ اسی نے اٹھایا جو حق کی راہ پر چلنےکا خواہش مند تھا (اور وہ آپ پر ایمان لا کر دنیا و آخرت میں کامیابی سے سرفراز ہوا اور جو ایمان نہ لایا) وہ دنیا میں آپ کے صدقے بہت ساری مصیبتوں سے بچ گیا

ویسے تو اللہ تعالیٰ کے تمام رسول اور اَنبیاء  باعث رحمت ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے حبیب عین رحمت اور سراپا رحمت ہیں ،اسی مناسبت سے یہاں حضرت عیسیٰ اور حضور پُر نور کی رحمت میں فرق پایا جاتا ہے   اللہ تعالیٰ نے قر آن مجید میں حضرت عیسیٰ کے بارے میں ارشاد فرمایا:

’’ وَ رَحْمَةً مِّنَّا‘‘(مریم:۲۱)

 اور اپنی طرف سے ایک رحمت (بنادیں )۔

اور اپنے حبیب کے حق میں ارشاد فرمایا

’’ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘

  اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔‘‘

ان دونوں کی رحمت میں بڑا عظیم فرق ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کے رحمت ہونے کو حرف ’’مِنْ‘‘ کی قید کے ساتھ ذکر فرمایا اور یہ حرف کسی چیز کا بعض حصہ بیان کرنے کے لئے آتا ہے اور اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ ان لوگوں کے لئے رحمت ہیں جو آپ پر ایمان لائے اور اس کتاب و شریعت کی پیروی کی جو آپ لے کر آئے اور ان کی رحمت کا یہ سلسلہ سیّد المرسَلین کے مبعوث ہونے تک چلا، پھر آپ کا دین منسوخ ہونے کی وجہ سے اپنی امت پر آپ کا رحمت ہونا منقطع ہو گیا جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے بارے میں کامل طور پر تمام جہانوں کے لئے رحمت ہونا بیان فرمایا،اسی وجہ سے عالَمین پر آپ کی رحمت کبھی منقطع نہ ہو گی، دنیا میں کبھی آپ کا دین منسوخ نہ ہو گا اور آخرت میں ساری مخلوق یہاں تک کہ (حضرت عیسیٰ اور) حضرت ابراہیم بھی آپ کی شفاعت کے منتظر ہوں گے۔