You are currently viewing سفر سے متعلق مسائل
Travel-related issues in ramadan

سفر سے متعلق مسائل

ایک شخص لاہور کے حسا ب سے سحری کھائے اور کراچی پہنچ کر اب لاہورکے حسا ب سے افطار کرے یا کراچی کے حساب سے

روزہ دار کے لئے جب اور جس جگہ سو رج غروب ہو جائے اس وقت اور اس جگہ کے اعتبا ر سے افطار کرے اگر سوار رہتے وقت سورج غروب ہو رہا ہے تو سوا ری پر افطار کرے اور سواری سے اتر کر بس سٹاپ یا گا ئوں سڑک بستی میں سورج ڈوب رہا ہے تو وہاں افطار کرے ۔

جب دوسرے ممالک سےاپنے ملک کا سفر کرتے ہوئے اور اپنے ملک پہنچ جا تے ہیں تو ہمیں وہاں کے حسا ب سے روزہ رکھنا چا ہیے یا گلف کے حساب سے ؟َ

جب کوئی ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کرتا ہے تو وہ اس ملک کے حساب سے روزہ رکھے جہاںکا سفر کر رہا ہے یہی اللہ اور اس کے رسول کے حساب سے ظاہر ہوتا ہے اللہ کا فرمان ہے ترجمہ :رمضان کا ماہ پائے وہ روزہ رکھے

نبی کا فرمان ہے ترجمہ :روزہ وہ دن ہے جس مین تم سب روزہ رکھتے ہو اور افطار وہ دن ہے جس میں تم سب روزہ نہیں رکھتے

آیت و حدیث سے صاف صاف پتہ چلتا ہے کی آدمی جہاں بھی سفر کر کے جائے وہاں کے لوگو ں کے حساب سےروزہ رکھے اور افطار کرے ۔

اگر ہم نے سفر میں روزہ توڑ لیا تو کیا اس کی قضا کرین ہو گی جب کہ اپنے ملک میں جا کر روزہ رکھنے سے ہمارا روزہ مکمل ہو جا تا ہے کبھی کبھی زیادہ ہی ہو جا تا ہے ؟

اگر کسی نے سفر کی وجہ سے فرض روزہ چھوڑا تھا تو بعد میں اس کی قضا کرے بہلے اپنے ملک کا روزہ ملا کر 29 یا 30 ہو جا تا ہو اس کی وجہ یہ ہے اس نے جو روزہ چھوڑا تھا وہ فرض روزہ تھا ۔

اگر کوئی شخص لاہور یا کراچی وغیرہ سے سفر کرتا ہے اس نے سحری وہاں کے حساب سے کھا ئی ہے افطار کا وقت اس کے لئے کیا ہو گا ؟

روزہ دار کے لئے جب اور جس جگہ سو رج غروب ہو جا ئےاس وقت اور اس جگہ کے حسا ب سے افطا ر کر ے اگر جہا ز میں رہتے وقت سورج غروب ہو رہا ہے تو جہا ز میں افطا ر کر ے اور جہا ز سے اتر کر ائر پو رٹ یا ں گا ؤں سڑک بستی میں سورج ڈوب رہا ہےتو وہاں پر افطا ر کر ے ۔

بعض لو گو ں کے ساتھ یہ پیش آتا ہے کہ ادھر سعو دی عرب ،دبئی ،قطر میں عید منا یا اور اپنے ملک سفر کیا ایک دن میں ملک آگیا  اگلے دن وہا ں بھی عید ہے اب وہ عید کی نما ز وہا ں بھی ادا کر ے گا یا ں نہیں ؟

جس نے رمضا ن مکمل کیا اور عید کی نما ز بھی ادا کر لی اب اس کے ذمے عید کی نما ز با قی نہ رہی تا ہم مسلما نو ں کے ساتھ ان کی عید اور خو شی میں شرکت کر سکتا ہے

اگر کو ئی رمضا ن میں  سعو دی عرب سے بھا رت کا سفر کرےتو وہ سعو دیہ کے حسا ب سے روزہ پو را کر ے گا یا ں بھا رت کے حسا ب سے ؟

جب کو ئی ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کر تا ہے تو وہ اس ملک کے حسا ب سے روزے رکھے گا جہا ں کا سفر کر رہا ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے فر ما ن سے ظا ہرہے ہو تا ہے  اللہ کا فر ما ن ہے تر جمہ : جو رمضا ن پا ئے وہ روزہ رکھے نبی کر یم ﷺ کا فر ما ن ہے  تر جمہ : روزہ وہ دن ہے جس میں تم سب روزے رکھتے ہو اور فطا ر وہ دن ہے جس میں تم سب روزہ نہیں رکھتے ہو  اس کا خلا صہ یہ ہے کہ روزہ تو اس ملک کےاعتبا ر سے رکھے گا جہا ں کا سفر کیا ہے لیکن اگر اس کے کچھ روزے سفر کی وجہ سے رہ جا تے ہیں تو بعد میں قضا کر نا ہو گا اس طر ح آدمی جس ملک میں جا رہا ہے اس ملک کے حساب سے اگر اس کا روزہ 31 دن کا ہو جا تا ہے تو کو یہ حر ج نہیں لیکن اگر 29 سے کم ہو جاتا ہے تو کم از کم ایک روزہ بعد میں رکھنا ہو گا کیو نکہ قمری ماہ میں کم از کم 29 دن ہو تے ہیں

ایک بہن کا سوال ہے کہ ان کہ والدہ پچھلے دو ما ہ سے وزٹ ویزہ پر ان کے پا س جدہ میں رہ رہی ہیں پھر ایک ما ہ کے لئے اپنے بھا ئی کے پا س دما م گئی وہا ں سے جب اپنی بیٹی کے پا س آئیں گی تو رمضا ن میں عمرے کا ارادہ ہے وہ دما م سے احرام با ندھ کر نہیں آسکتی ہیں جب ان کو رمضا ن میں بیٹی داما د کے ساتھ پر میٹ ملے گا تب عمرہ کر یں گی ایسی صورت میں کیا اس عو رت کو جدہ میں 15 دن مقیم کی حیثیت سے مکمل کر نا ہو گا پھر عمرہ کر یں گی ؟

اس میں کو ئی حر ج نہیں ہے وہ عورت جب دما م سے اپنی بیٹی کے گھر آجا ئے  اور ان کا عمرہ کرنے کا ارادہ ہو پر مٹ مل جا ئے تو اس وقت جدہ سے ہی احرام با ندھ کر عمرہ کر یں اس کو 15 دن مکمل کر نا کوئی ضروری نہیں ہے نہ ہی 15 دن والی با ت درست ہے مسا فر جب کسی جگہ کا سفر کر ے اور وہاں 4 دن سے زیادہ رکنے کا رادہ ہو تو اول دن سے ہی مقیم کے حکم میں ہے اور عمرے کہ ادائیگی کے لئے مسافر اور مقیم کا کو ئی مسلہ نہیں ہے جس وقت کو ئی عمرے کا ارادہ کرے اسی وقت وہ عمرہ کر سکتا ہے عمرے کا ارادہ کر نے والا حدود حرم میں ہو تو حدود حرم سے با ہر نکل کر احرام با ندھے میقات کے اندر ہو تو اسی جگہ سے احرام با ندھے اور میقات سے با ہر ہو تو میقات سے احرام با ندھے یہ اصل مسلہ ہے

میں رمضا ن میں پا کستا ن سے نکلو گا اور سعودی میں افطا رکر وں گا اس میں سوال یہ ہے کہ جب سحری کر تے ہیں تو سعودی سے دو سوا دو گھنٹے پہلے ہے بھر جب افطا ر کر یں گے تو پا کستا نی وقت سے دو سوا گھنٹے بعد میں افطا ر کر یں گے اس روزے میں چا  ر سا ڑھے گھنٹے کا فرق ہو رہا ہے اس کا کیا حکم ہے ؟

سحری اور افطا ری میں اس جگہ کا اعتبا ر ہو گا جہا ں پر مو جو د ہیں  سحری کے وقت پا کستا ن میں ہیں تو سحری کے لئے پا کستا ن کا اعتبا ر ہو گا اور افطا رکے وقت سعودی میں ہیں تو  افطا رسعودی کا اعتبا رہو گا  اور روزے کا جو دورانیہ بڑھ جا تا ہے اس کا کو ئی مسلہ نہیں ہے ہا ں اگر اس سے مسا فر کو روزہ رکھنے میں مشقت ہو تو سفر کی وجہ سے مسا فر روزہ چھو ڑ سکتا ہے بعد میں اس کی قضا کر لے گا