You are currently viewing سیرت النبی ،قریش کے مقابلے میں صحابہ کا جو ش ووجذبہ

سیرت النبی ،قریش کے مقابلے میں صحابہ کا جو ش ووجذبہ

حضرت عبدالرحمن بن عوف نے امیہ کو بچانے کے لیے اس کے بیٹے کو آگے کردیا ۔امیہ جاہلیت کے زمانے میں ان کا دوست تھا۔اسی دوستی کے ناتے حضرت عبدالرحمن بن عوف اسے قتل ہونے سے بچانا چاہتے تھے۔ادھر حضرت بلال پر اس کے قتل کی دھن پوری طرح سوار تھی ۔ حضرت بلال کی تلوار امیہ کے بیٹے کو لگی اور وہ زخمی ہوکر گرا،اسے گرتا دیکھ کر امیہ بھیانک انداز میں چیخا ۔یہ چیخ حد درجے خوفناک اور ہولناک تھی، ساتھ ہی تلواریں بلند ہوئیں اور امیہ کے جسم میں اتر گئیں ۔امیہ کو بچانے کے سلسلے میں حضرت عبدالرحمن بن عوف خود بھی معمولی سے زخمی ہوئے ۔وہ کہا کرتےتھے” الله تعالٰی بلال پر رحم فرمائیں، میرے حصے میں نہ زرہیں آئیں نہ قیدی۔ ایسے میں حضور نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کسی کو نوفل بن خویلد کا بھی پتہ ہے؟ جواب میں حضرت علی نے عرض کیا: الله کے رسول!اسے میں نے قتل کیا ہے۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے ارشادفرمایا: اللہ اکبر!اللّٰہ کا شکر ہے جس نے اس شخص کے بارے میں میری دعا قبول فرمائی۔جنگ شروع ہونے سے پہلے اس نوفل بن خویلد نے بلند آواز میں کہا تھا اے گروہِ قریش!آج کا دن عزت اورسر بلندی کا دن ہے-اس کی بات سن کر آپ ﷺ نے فرمایا تھا:اے اللہ نوفل بن خویلد کا انجام مجھے دکھلا اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا: قتل ہونے والے کافروں میں ابوجہل کی لاش کو تلاش کیا جائے” ابوجہل نے جنگ شروع ہونے سے پہلے کہاتھا: اے اللّٰہ!دونوں دینوں (یعنی اسلام اور کفار کے خود ساختہ دین) میں جو دین تیرے نزدیک افضل اور پسندیدہ ہو اسی کی مدد فرما اور نصرت فرما۔حضرت معاذ بن عمرو جموح جو اس جنگ کے دوران کم سن صحابہ میں شمار ہوتےتھے،کہتے ہیں کہ جنگ کے دوران میں نے دیکھا کہ ابوجہل کو اس کے بہت سے ساتھی حفاظت کے لیے گھیرے میں لیے ہوئے ہیں اور وہ کہہ رہے تھے: اے ابو الحکم (ابوجہل کی کنیت تھی) تم تک کوئی نہیں پہنچ پائے گا۔ جب میں نے ان کی یہ بات سنی تو ابوجہل کی طرف بڑھا اور اس پر تلوار کا ایک ہاتھ مارا۔اس وار سے اس کی پنڈلی کٹ گئی۔ابوجہل کے بیٹے حضرت عکرمہ باپ کی مدد کے لیے بڑھے۔(یہ حضرت عکرمہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے) انھوں نے مجھ پر تلوار کا وار کیا۔اس سے میرا بازو کٹ گیا۔صرف تھوڑی سی کھال کے ساتھ بازو اٹکا رہ گیا۔میں جنگ میں مصروف رہا،لیکن لٹکنے والے ہاتھ کی وجہ سے لڑنا مشکل ہورہاتھا۔میں تمام دن لڑتا رہا اور وہ بازو لٹکتا رہا۔آخر جب اس کی وجہ سے رکاوٹ زیادہ ہونے لگی تو میں نے اپنا پاؤں اس پر رکھ کر جھٹکا دیا۔اس سے وہ کھال بھی کٹ گئی۔میں نے اپنے بازو کواٹھا کر پھینک دیا۔ابوجہل زخمی حالت میں تھا کہ اس دوران اس کے پاس معوذ بن عفراء گزرے۔انہوں نے اس پر وار کیا۔اس وار سے وہ گرگیا اور وہ اسے مردہ سمجھ کر آگے بڑھ گئے،لیکن وہ ابھی زندہ تھا۔ حضرت معوذ جنگ کرتے آگے بڑھتے چلےگئے، یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ اتنے میں زخموں سے چور ابوجہل کے پاس سے حضرت عبداللہ بن مسعود کا گزر ہوا۔انہوں نے اپنا پیر اس کی گردن پر رکھ کر کہا:متحد صحا بہ کے جو ہے

arabic-man-chalo-masjid-com-5

خدا کے دشمن! کیا تجھے خدا نے رسوا نہیں کر دیا۔“ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود نےاس کا سر تن سے جدا کر دیاپھر حضور نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور عرض کیا: ”اے اللہ کے رسول! میں نےابو جہل کو قتل کیا ہے۔“ آپ نے فرمایا: ”برتری اسی ذات باری تعالیٰ کے لئے ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔“ آپ نے یہ کلمہ تین بار فرمایا۔پھر آپ نے ابو جہل کی تلوار حضرت عبدللہ بن مسعود کو عطا فرما دی۔اس خوبصورت اور قیمتی تلوار پر چاندی کا کام کیا گیا تھا۔ بدر کی جنگ میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے بھی مدد فرمائی تھی۔اس روز حضرت زبیر بن عوام نے نہایت سرفروشی سے جنگ کی۔ان کے جسم پر بہت بڑے بڑے زخم آۓ۔ اس جنگ میں حضرت عکاشہ بن محصن کی تلوار لڑتے لڑتے ٹوٹ گئی تو آنحضرت نے انہیں کھجور کی ایک چھڑی عنایت فرمائی۔ وہ چھڑی ان کے ہاتھ میں آتے ہی معجزاتی طور پر ایک چمک دار تلوار بن گئی۔حضرت عکاشہ اس تلوار سے لڑتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔اس تلوار کا نام عون رکھا گیا۔یہ تلوار تمام غزوات میں حضرت عکاشہ کے پاس رہی اور اسی تلوار سے وہ جنگ کیا کرتے تھے۔ان کے انتقال کے بعد یہ تلوار ان کی اولاد کو وراثت میں ملتی رہی،ایک سے دوسرے کے پاس پہنچتی رہی۔ اسی طرح حضرت سلمہ بن اسلم کی تلوار بھی ٹوٹ گئی تھی۔حضور اکرم نے انہیں کھجور کی جڑ عطا فرمائی اور فرمایا: ”اس سے لڑو“ انہوں نے جونہی اس جڑ کو ہاتھ میں لیا،وہ ایک نہایت بہترین تلوار بن گئی اور اس غزوہ کے بعد ان کے پاس رہی۔ حضرت خبیب بن عبدالرحمن بیان کرتے ہیں کہ ایک کافر نے میرے دادا پر تلوار کا وار کیا۔اس وار میں ان کی ایک پسلی الگ ہو گئی۔حضور اکرم نے لعاب دہن لگا کر ٹوٹی پسلی اس کی جگہ رکھ دی۔وہ پسلی اپنی جگہ پر اس طرح جم گئی جیسے ٹوٹی ہی نہیں تھی۔

حضرت رفاعہ بن مالک کہتے ہیں کہ ایک تیر میری آنکھ میں آکر لگا،میری آنکھ پھوٹ گئی۔میں اسی حالت میں حضور اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ نے میری آنکھ میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا،آنکھ اسی وقت ٹھیک ہو گئی اور زندگی بھر اس آنکھ میں کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ اب آپ نے حکم فرمایا کہ مشرکوں کی لاشوں کو ان جگہوں سے اٹھا لایا جاۓ جہاں جہاں ان کے قتل ہونے کی نشان دہی کی تھی۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریم نے جنگ سے ایک دن پہلے ہی ہمیں بتا دیا تھا کہ ان شاءاللہ کل یہ عتبہ بن ربیعہ کے قتل کی جگہ ہوگی،یہ شیبہ بن ربیعہ کے قتل کی جگہ ہو گی۔یہ امیہ بن خلف کے قتل کی جگہ ہوگی۔

آپ نے اپنے دست مبارک سے ان جگہوں کی نشان دہی فرمائی تھی اب جب لاشیں جمع کرنے کا حکم ملا اور صحابہ کرام لاشوں کی تلاش میں نکلے تو کافروں کی لاشیں بالکل انہی جگہوں پر پڑی ملیں۔ حضور اکرم نے ان تمام لاشوں کو ایک گڑھے میں ڈالنے کا حکم فرمایا۔