“عورت کی عظمت: دین اسلام کی حقیقی روشنی”

دین اسلام نے  عورت کو اعلى مقام ديا ہے،  دین اسلام کى نظر ميں انسانى لحاظ سے مرد اور عورت  دونوں  برابر ہيں – اسلئے مرد کے لیے اس کا مرد ہونا قابلِ فخر ہے اور نہ عورت کے لیے اس کی عورت ہونا باعثِ شرم ہے – ہر مرد کی زندگی میں  عورت کسى نہ کسى صورت ميں ايک موثر کردار ادا کرتى  ہے ۔ ايک متوازن اور ترقى يافتہ  معاشرے کی بنیاد رکھنے میں عورت  کا بہت اہم کردار ہے- قرآن مجید  اور احادیث مبارکہ میں جا بجا عورت کے  مقام کے بارے میں آیت اور ہدایات موجود ہیں۔ عورت خواہ ماں، بہن، بیوی یا بیٹی ہو – دین اسلام نے ان میں سے ہر ایک کے حقوق وفرائض کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔

کسى بهى انسان کےليے  ماں ہى زندگى کا مصدر ہوتى ہے، وہى دنيا ميں اس کى آمد اور بقا کا سبب بهى، اسى ليے اس کا شکر ادا کرنا ،اس کے ساتھ نیکی سے پیش آنا اور خدمت کرنا عورت کے اہم ترین حقوق میں سے ہے۔ حسن سلوک اور اچھے اخلاق سے پیش آنے کے سلسلے میں ماں کا حق باپ سے زیادہ ہے ،کیونکہ بچے کی پیدائش اور تربیت کے سلسلے میں ماں کو زیادہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اور دین اسلام نے ان تمام تکالیف کو سامنے رکھتے ہوئے ماں کو زیادہ حسن سلوک کا مستحق قرار دیا، جو دین اسلام کا عورت پر بہت بڑا احسا ن ہے۔

دین اسلام نے بيٹيوں کو زندگى  کاحق ديا زمانہ جاہلیت  ميں عرب کے بعض قبائل لڑکیوں کو زنده دفن کردیتے تھے ۔ قرآن مجید نے اس پر سخت تنقید کی اور اسے زندہ رہنے کا حق دیا اور کہا کہ جو شخص اس کے حق سے روگردانی کرے گا، قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس کاجواب دینا ہوگا۔  اللہ تعالى نےفرمایا: اور جب لڑکی سے جو زندہ دفنا دی گئی ہو پوچھا جائے گا- کہ وہ کس گناہ پرماری گئ[تکویر:8،9

 اسی طرح بہت سے مشرکوں کو ان کے شریکوں نے ان کے بچوں کو جان سے مار ڈالنا اچھا کر دکھایا ہے تاکہ انہیں ہلاکت میں ڈال دیں اور ان کے دین کو ان پر خلط ملط کر دیں اور اگر خدا چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور ان کا جھوٹ ( [الأنعام /137 ]

 دین اسلام ميں مرد وعورت دونوں انسان ہیں اور  وه دونوں انسانيت کی حیثيت سے اپنی خلقت اور صفات کے لحاظ سے فطرت کا ايک عظیم شاہکار ہيں  ۔ جو اپنی خوبیوں اور خصوصیات کے اعتبار سے ساری کائنات کی محترم بزرگ ترین ہستی ہے ۔

دین اسلام نے خواتین کو علم حاصل کرنے کاحق ديا کیونکہ انسان کی ترقی کا دارومدار علم پر ہے اور کوئی شخص یاقوم علم کے بغير نہيں ره سکتا ۔ يہ صرف مردوں يا کسى  خاص طبقے کے لیے نہيں ہے بلکہ  دین اسلام نے علم کو فرض قرار دیا اور مرد وعورت دونوں کے لیے اس کے دروازے کھولے اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ وپابندیاں تھیں، سب کو ختم کردیا۔دین اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کی طرف خاص توجہ دلائی اور اس کی ترغیب دی، جیسا کہ رسول اکرم نے فرمایا: طلب العلم فریضة ، ايک دوسری جگہ ابوسعید خدری کی روایت ہے کہ رسول اللّٰلہﷺ  نے فرمایا: “جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم تربیت دی، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی) حسن سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے ۔” دین اسلام مرد وعورت دونوں کو مخاطب کرتا ہے اور اس نے ہر ایک کو عبادت اور  اخلاق وشریعت کا پابند بنایا ہے جو کہ علم کے بغیر ممکن نہیں۔ علم کے بغیر عورت نہ تو اپنے حقوق کی حفاظت کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرسکتی ہے ؛ اس لیے مرد کے ساتھ ساتھ خواتین کی تعلیم بھی نہایت ضروری ہے ۔

دین اسلام نے خواتین کو شوہر کا انتخاب کرنے کاحق ديا:

 شوہر کے انتخاب کے بارے میں دین اسلام نے عورت کو آزادی دی ۔ لڑکیوں کی مرضی اور ان کی اجازت ہر حالت میں ضروری قرار دی گئی ہے ۔ ارشاد نبوی ہے :”شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ لیاجائے اور کنواری عورت کا نکاح بھی اس کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے ۔”(مشکوٰة)

دین اسلام نے خواتین کو الگ مالياتى حقوق ديے:

 عورت کا نفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمہ ہے ۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ۔ بہن ہے تو بھائی کے ذمہ ، بیوی ہے تو شوہر پر اس  کا نفقہ واجب کردیا گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمہ ہے تا کہ ہر حالت ميں عورت کى عزت وکرامت محفوظ رہے، ہاں البتہ  اگر عورت اپنے شوہر یا اپنی اولاد کو خود اپنى مرضى سے پيسے يا زمين يا اپنى جائيداد  دے یا کسی کو ہبہ کرے تو یہ اس کی اپنی مرضی ہے، لیکن اس کا نفقہ اس کے شوہر پر واجب ہے، ارشاد باری تعالی ہے کہ: اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی) (بقره: 233) – ( صاحب وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہیئے۔ اور جس کے رزق میں تنگی ہو وہ جتنا خدا نے اس کو دیا ہے اس کے موافق خرچ کرے۔ خدا کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اسی کے مطابق جو اس کو دیا ہے۔ اور خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا) (طلاق: 7)

نبى کريم ﷺ کے وصال کے بعد نصف صدى  تک امہات المؤمنين نے علمى خدمات سر انجام ديں- ان ميں سے حضرت عائشہ ؓ کا علمى مرتبہ بہت بلند اور وسيع ہے ، وه  امتِ مسلمہ  کى  ماہرانہ عالمہ تھيں علمى ميدان ميں آپ ؓ نے علمى، عملى، اجتماعى، معاشرتى، وعظ ونصيحت، اور امت کى تعليم وتربيت کے ليے بہت کام کيے- حضرت  عائشہ ؓ کى اعلى صلاحيتوں  کو رسولﷺ کى تربيت نے جلا بخشى- اس لئے تمام دينى علوم ميں  انهوں  نے مہارت حاصل کى- اور  آپ ؓ کے حلقہء علم ميں کبار صحابہ کرام  رضى اللہ عنھم  بھى شريک ہوتے  تھے- آپ ؓ کے شاگردوں کى تعداد سينکڑوں ميں تهى اور اکابر صحابہ کے طرح حديث، فقہ، فتاوى، طب، انساب، شاعرى، عرب کى تاريخ اور کئى  علوم ميں مرجع کى  حيثيت رکھتى تھيں۔

       دین اسلام نے انسان کو جو‏عزت واحترام دیا ہے اس میں مرد و عورت دونوں برابر کے شریک ہیں ، اور وہ اس دنیا میں اللہ تعالی کے احکامات میں برابر ہیں اوراسی طرح دار آخرت میں اجر و ثواب میں بھی برابر ہیں، بلکہ دین اسلام مردوں کو حکم ديتا ہے کہ ان کو خواتین  کے ساتھ (خواہ مسلم یا غیر مسلم) بڑی عزت سے معاملہ کرنا چاہيے۔  اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمايا ہے  (اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے )  [البقرۃ : 228 ] ۔ دین اسلام امن وامان اور انسانيت  کا دين ہے ايک ايسا  نظام حيات ہے جس نے نہ صرف انسان بلکہ   حيوان ونبات کى حفاظت کرنے کا حکم ديا اور دین اسلام ميں جو مقام عورت کو حاصل ہے  اس کا وجود کسى اور مذہب ميں نہيں ہے اسى لئے اس کى  حفاظت ،عزت اور قدر کرنا معاشره کے ہر فرد پر لازم ہے

Leave a Reply